الیکشن پر سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول ہوگا: وزیراعظم
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ نگران وزیراعظم بنوں گا۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے پیغام بھیجا تھا۔ شہباز شریف نے کہا ذہنی طور پر تیار رہیں‘ اہم ذمہ داری دینی ہے۔ دوستوں میں مذاق کی حد تک ایسی باتیں ہوتی تھیں۔ عہدے کی خوشی اپنی جگہ‘ لیکن پریشر بھی ہوتا ہے۔ نہیںچاہوں گا کہ آئین کے مطابق وقت سے زیادہ یہاں گزاروں۔ قانون کے مطابق الیکشن کمشن انتخابات کا فیصلہ کرے گا۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی ہمارے لئے قابل قبول ہو گا۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق انتخابات کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، اگر اعلیٰ عدلیہ نے 90دن میں الیکشن کرانے کا کہا تو ہم الیکشن کرائیں گے اور اس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہ کریں تو نظام سیاست متاثر ہوتا ہے۔ حکومت ایسا نظام بناتی ہے جس سے محروم طبقے پر خرچ ہو۔ میرا کہنا تھا کچھ لوگ احتجاج کو سول وار سے تشبیہ دے رہے ہیں جبکہ ایسا نہیں۔ مجھے اندازہ ہے ایسا طبقہ ہے جس پر انتہائی بوجھ ہے۔ ماضی میں ایک بار بجلی کا بھاری بل دیکھ کر ہوش ٹھکانے آئے تھے۔ پہلے دن جب آفس سنبھالا پہلی میٹنگ پاور ٹیرف ٹیکس سے متعلق کی۔ تیرہ سے 14 دن ہمارا وقت انہی مسئلوں میں گزرا ہے۔ ہماری فنانس پاور ٹیم اس مسئلے کا مختصر مدتی حل تجویز کرنے جا رہی ہے۔ ہماری نیت درست ہے‘ تنقید کی پرواہ نہیں۔ بجلی کا ترسیلی نظام بہت سارے نقائص کا شکار ہے۔ بجلی بلوں سے متعلق میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ بجلی بلوں کا مسئلہ عالمی مالیاتی معاہدوں سے جڑا ہے۔ بلوں کے حوالے سے حتمی اعلان مکمل تحقیق کے بعد کیا جائے گا۔ نہیں چاہتے کوئی ایسا اعلان کریں جو بعد میں واپس لینا پڑے۔ خسارے میں جانے والے مختلف اداروں کی نجکاری ایجنڈے پر ہے۔ آئین نے پرائیویٹائزیشن سے متعلق راستہ بتایا ہے۔ چند دنوں میں پرائیویٹائزیشن کے ایجنڈے کو 5 سے 10 فیصد آگے بڑھایا ہے۔ مغلیہ انداز میں یہ اعلان نہیں کرنا چاہتا کہ کل شام تک پی آئی اے کی نجکاری درکار ہے۔ صوبوں کے ساتھ ایک ہو کر فیصلہ کرنا ہے۔ انتخابات سے متعلق جو بھی فیصلہ آئے گا نگران حکومت معاونت کرے گی۔ صاحب ثروت طبقے سے ٹیکس لے کر پسماندہ طبقے پر خرچ ہونا چاہئے۔ توانائی کی بچت کیلئے چند دنوں میں عملی اقدام نظر آئے گا۔ عسکریت پسندوں کے معاملے میں مذاکرات اور طاقت کا استعمال دونوں کرنا چاہئے۔ ہم پرامن اور خوشحال افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ خوشحال پاکستان کے تصور سے خوشحال افغانستان جڑا ہوا ہے۔ دونوں طرف سے ٹارگٹ حاصل کرنے کیلئے راستے موجود ہیں۔ دنیا نے 9 مئی کو جو کچھ دیکھا ایسی ہلڑبازی ناقابل برداشت ہے۔ سائفر سے متعلق میں نے ابھی تک کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ عالمی میڈیا نے 9 مئی کی ہلڑبازی کو نمایاں کوریج دی۔ کسی بھی جماعت کے کارکن قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔ سمجھا جا رہا تھا افغانستان میں نئی حکومت سے حالات بہتر ہوں گے۔ افغانستان میں حالات بہتر نہیں ہوئے بلکہ زیادہ بگڑ گئے۔ امریکی انخلاء کے بعد چھوڑے گئے جنگی آلات سے مسائل پیدا ہوئے۔ بھارت سے روایتی و تاریخی رشتہ بدقسمتی سے دوستانہ نہیں رہا۔ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل طلب مسئلہ ہے۔ کشمیر بنیادی مسئلہ کہنے کا مطلبہ یہ نہیں کہ ہم ہمہ وقت جنگ چاہتے ہیں۔ بھارت سے ہم جنگ نہیں چاہتے‘ امن سے انکار کیا جائے تو پوری دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہو گا۔ نگران وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان سے انخلاء غیر ذمے دارانہ طریقے سے جلد بازی میں کیا گیا۔ انخلاء ذمے داری سے کیا جاتا تو معاملات بہتر ہوتے۔ عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔ نیٹو کے چھوڑے گئے آلات سے ہم پر حملے شروع ہو چکے ہیں۔ نیٹو انخلاء کے بعد رہ جانے والے آلات پاکستان کیلئے ہی نہیں پورے خطے کیلئے مسئلہ ہیں۔ یہ آلات چین‘ ایران اور وسط ایشیا کیلئے بھی مسئلہ ہیں۔ خطے کے باقی ملکوں کو انتظار کرنا ہو گا کہ ان پر یہ وقت کب آتا ہے۔