نگران سیٹ اپ اپنی گورننس پر توجہ دے
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہا ہے۔ چین‘ ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑیگا۔ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ایجنڈے پر ہے۔ چند روز میں ہم نے اس کام کو پانچ سے دس فیصد آگے بڑھایا ہے۔ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک بھارت سے تجارت نہیں ہوگی۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچستان میں جنگجوئوں کیخلاف طاقت اور مذاکرات دونوں آپشن استعمال کرنا پڑیں گے۔ عدلیہ نے کہا تو 90 روز میں الیکشن کرا دیں گے۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ آئین اور قانون کے تحت جتنا وقت متعین ہے‘ وہ اس سے ایک گھڑی بھی زیادہ اپنے منصب پر نہیں رہیں گے۔ اس کا تعین ظاہر ہے قوانین کرینگے اور یہ عمل انتخابات سے جڑا ہوا ہے۔ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابات کا فیصلہ کریگا۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کریگی ہمارے لئے قابل قبول ہوگا۔ انکے بقول سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہ کریں تو اس سے نظام سیاست متاثر ہوتا ہے۔
نگران وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہم پرامن اور خوشحال افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ خوشحال پاکستان کے تصور سے خوشحال افغانستان جڑا ہوا ہے۔ دونوں طرف ٹارگٹ حاصل کرنے کیلئے راستے موجود ہیں۔ دنیا نے 9 مئی کو جو کچھ دیکھا‘ ایسی ہلڑبازی ناقابل برداشت ہے۔ کسی بھی جماعت کے کارکن قانون ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل طلب مسئلہ ہے۔ اسے بنیادی مسئلہ کہنے سے یہ مراد نہیں کہ ہم ہمہ وقت جنگ چاہتے ہیں۔ ہم بھارت کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں مگر امن سے انکار کیا جائے تو یہ پوری دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہوگا۔
گزشتہ ماہ 9 اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد انوارالحق کاکڑ کی سرکردگی میں نگران سیٹ اپ تشکیل پایا جو اسمبلی کی قبل ازوقت تحلیل کے باعث آئینی تقاضے کے تحت 90 دن کیلئے قائم ہوا ہے جسے اس مقررہ میعاد کے اندر آئینی تقاضے کے تحت ہی آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کے دست و بازو بننا ہے جبکہ آئین نے انتخابات کے انتظامات کیلئے الیکشن کمیشن کو ایک خودمختار ادارے کی حیثیت دی ہے چنانچہ انتخابات سے متعلق کسی بھی معاملہ پر الیکشن کمیشن ہی کو حکومت، انتظامی مشینری اور دوسرے متعلقہ اداروں بشمول سکیورٹی اداروں سے معاونت طلب کرنا ہوتی ہے۔ اس تناظر میں نگران حکومت کی ذمہ داری صرف الیکشن کمیشن کو معاونت فراہم کرنے کی ہے۔
گزشتہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ انتخابی اور عدالتی اصلاحات ایکٹ کے تحت چونکہ انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کو تفویض کردیا گیا ہے جس کے بارے میں الیکشن کمیشن اور وفاقی وزارت قانون کی جانب سے اپنے الگ الگے مراسلوں کے ذریعے صدر مملکت کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ اس لئے بادی النظر میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کی سردردی سے بھی نگران حکومت بری الذمہ ہے جبکہ اس اہم آئینی مسئلہ پر آئین کی متعلقہ شقوں کی تشریح کیلئے دائر کردہ درخواستیں سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہیں۔ اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کا جو بھی فیصلہ صادر ہوگا۔ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو اسکی روشنی میں انتخابات کے انتظامات کرنا ہونگے۔ اب معاملہ صرف نئی مردم شماری کی توثیق کے بعد نئی حلقہ بندیوں کیلئے الیکشن کمیشن کو مدت فراہم کرنے کا ہے جو ایک لازمی آئینی تقاضا ہے اور اسی جواز کی بنیاد پر عام انتخابات 90 دن کی مقررہ آئینی میعاد سے آگے لے جانے کی بات ہو رہی ہے۔ یقیناً اس بارے میں بھی سپریم کورٹ نے ہی وضاحت کرنی ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق آئینی شقوں کی کیسے پاسداری کرنی ہے۔
الیکشن کمیشن تو اپنے طور پر انتخابات کا دورانیہ محدود کرنے کی حکمت عملی طے کر رہا ہے جس کیلئے حلقہ بندیوں کا کام نومبر تک مکمل کرنے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ تاہم یہ سارے معاملات سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ساتھ مشروط ہیں جس کی پابندی کرنے کا بھی نگران وزیراعظم نے عندیہ دے دیا ہے۔
اس تناظر میں نگران سیٹ اپ کی ذمہ داری صرف انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کی رہ جاتی ہے جبکہ اسے امور حکومت و مملکت سے متعلق روزمرہ کے معاملات بہرصورت نمٹانا ہوتے ہیں جن میں امن و امان اور عوام کے روٹی روزگار سے متعلق روزمرہ کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات اٹھانا بھی شامل ہیں۔
اگرچہ تحلیل ہونیوالی اسمبلی نے نگران وزبراعظم کو عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ کئے گئے بیل آئوٹ پیکیج کے معاہدے پر عملدرآمد کیلئے بعض اضافی اختیارات بھی تفویض کئے ہیں تاہم آئین کے تقاضے کے تحت نگران حکومت کا دائرہ اختیار صرف روزمرہ کے معاملات نمٹانے تک محدود ہے جسے پالیسی معاملات سے متعلق کسی قسم کا فیصلہ کرنے کا قطعاً اختیار نہیں۔ اس تناظر میں نگران حکومت بادی النظر میں قومی اداروں کی نجکاری سے متعلق کوئی پالیسی فیصلہ کرنے اور بیرونی دنیا سے تعلقات کی کوئی مستقل پالیسی وضح کرنے کی بھی مجاز نہیں۔ اسے امن و امان کو یقینی بنانے اور عوام کے روٹی روزگار بالخصوص مہنگائی کے درپیش مسائل کے حل کی طرف بہرصورت توجہ دینا ہے۔ نگران حکومت فی الحقیقت ان عوامی مسائل پر بے نیاز ہی نظر آتی ہے۔ افغانستان کے اندر سے کالعدم ٹی ٹی پی کی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا تسلسل گزشتہ دور سے ہی برقرار ہے جبکہ نگران دور میں دہشت گردی کی کارروائیوں بالخصوص سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کا سلسلہ مزید تیز ہوا ہے۔
بے شک دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز اپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر شہریوں کی جانیں محفوظ کررہی ہیں تاہم دہشت گردی کے ’’روٹ کاز‘‘ کے تدارک کی ٹھوس حکمت عملی طے کرنا اور اس روٹ کاز کے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی پر مرتب ہونیوالے مضر اثرات سے ٹھوس بنیادوں پر اقوام متحدہ اور عالمی قیادتوں کو آگاہ کرنا اور اسکے ساتھ ساتھ کابل انتظامیہ کو پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے سخت وارننگ دینا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے نگران حکومت کا کوئی ٹھوس اقدام اب تک سامنے نہیں آیا جبکہ عوام روزافزوں مہنگائی کے ہاتھوں زچ ہو کر عملاً خانہ جنگی کی کیفیت میں مبتلا ہوچکے ہیں جو حکومتی گورننس کیلئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس تناظر میں نگران حکومت کو عوام کو زندہ درگور کرنے والی پالیسیاں طے کرنے اور ملک کے امن و سلامتی کے تقاضوں سے پہلوتہی سے اجتناب کرنا چاہیے اور پالیسی معاملات کے بکھیڑوں میں پڑنے کی بجائے اپنی توجہ انتقال اقتدار کے پراسس کی تکمیل پر ہی مرکوز کرنی چاہیے۔ اسی سے ملک، عوام اور سسٹم کی بہتری ممکن ہو سکتی ہے۔