آداب ِ غذا
یہ بات حقیقت ہے کہ انسان کا غذا کے بغیر گزارا نہیں ہے کیونکہ جسم کو طاقت غذا سے ہی ملتی ہے۔اگر جسم کو غذا نہ ملے تو اس سے جسم کمزور ہو جائے گا۔ لیکن غذا کے استعمال کی شرط یہ ہے کہ اس میں مبالغہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی رات دن کھانے پینے کی فکر ہونی چاہیے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : جو پیٹ میں داخل کرنے ہی کی فکر میں رہتا ہے اس کی قدرو قیمت وہ ہوتی ہے جو پیٹ سے خارج ہو تا ہے۔حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا آپ بھوکا رہنے کی اتنی زیادہ تعریف کیوں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اگر فرعون بھوکا رہتا تو ہر گز میں تمہارا سب سے بڑا رب ہو ں نہ کہتا۔
اگر قارون بھوکا رہتا تو باغی نہ ہوتا اور لومڑی چونکہ بھوکی رہتی ہے اس لیے ہر ایک اس کی تعریف کرتا ہے جب پیٹ بھر جاتا ہے تو نفا ق پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کافروں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : انہیں چھوڑو جو کھاتے اور عیش کرتے ہیں وہ اپنی خواہشوں میں مگن ہیں۔ عنقریب وہ اپنا انجام جان لیں گے۔
ارشاد باری تعالی ہے : کافر لوگ عیش کرتے اور کھانے پینے میں ایسے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں ان کا ٹھکا نا جہنم ہے۔مشائخ طریقت نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا : ان کا کھانا بیماروں کی طرح ان کی نیندگہری نیند والوں کی طرح اور ان کی گفتگو بچوں کی چیخ و پکار کی طرح ہوتی ہے۔غذا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ تنہا نہ کھائے اور جو کھائے دوسروں کو بھی اس میں اپنے ساتھ شریک کرے۔
حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : سب سے زیادہ برا شخص وہ ہے جو اکیلا کھائے۔ غلام کو مارے اور خیرات نہ دے۔غذا کے آداب میں سے ہے کہ جب دستر خواں پر بیٹھے تو خاموش بیٹھے اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرے اور کوئی چیز اس طرح نہ رکھے یا اٹھائے جسے لوگ نا پسند کرتے ہو ں۔اس کے بعد لازم ہے کہ دائیں ہاتھ سے کھانا کھائے اور اپنے لقمے کے سوا کسی کی طرف نہ دیکھے۔ کھانے میں پانی کم پینا چاہیے اور اس وقت پینا چاہیے جب سچی پیاس لگے اور اتنا پئے جس سے جگر تر ہو جائے۔ لقمہ بہت بڑ ا نہیں ہو نا چاہیے اور اسے خوب چبا کر کھانا چاہیے۔ کھانے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان باتوں سے بد ہضمی پیدا ہوتی ہے اور سنت کے خلاف بھی ہے اور جب کھانا کھا کر فارغ ہو جائیں تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چا ہیے اور پھر ہاتھ دھو لینے چاہیے۔ (بحوالہ کشف المحجوب)