• news

آئی جی کے نام

 آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور بڑی متحرک شخصیت ہیں۔ انھوں نے ریاست کے ہر ٹارگٹ کو اچیو کیا بلکہ توقع سے بڑھ کر پر فارمنس دی ہے۔ اپنی اسی کارکردگی کی بنا پر وہ کئی ایک کی آنکھ کا تارا ہیں۔ انھوں نے اپنی پولیس فورس پر بھی خصوصی نوازشات کی ہیں۔ اچھے سپہ سالار کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے جوانوں میں ہردلعزیز ہو جوانوں کی اپنے سپہ سالار سے جذباتی وابستگی ہو۔ 
ڈاکٹر عثمان انور نے اپنی فورس کا مورال بلند کیا اور اتنی کھلی چھوٹ دی کہ وہ اعلی حکام کے حکم کی تعمیل میں خصوصی اختیارات استعمال کرتے کرتے من مانیاں بھی کر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عثمان انور میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اچھے کمیونیکیٹر بھی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ہمارے بہت سارے اینکرز سے بہتر اینکر ہیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ وہ آدھے سے زیادہ پاکستان کے صوبہ کے آئی جی ہیں ہر کوئی ان کی بات کو غور سے سنتا ہے۔ انھوں نے اپنی میڈیا ٹیم پر اکتفا کرنے کی بجائے میڈیا کا مورچہ بھی خود ہی سنبھال لیا ہے اور آنیوالے آئی جی صاحبان کیلئے شاید یہ روایت برقرار رکھنا مشکل ہو جائیگا۔ 
بہر حال انھوں نے دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے محکمہ پولیس کی ساکھ کوبہتر بنانے کیلئے نت نئے طریقوں سے صحافتی ٹچ دیا۔ انکے پروگرام کافی ہٹ جا رہے ہیں یہ سارا کچھ بہت اچھا ہے لیکن شاید انکی اپنے محکمہ پر نوازشات سے نچلے طبقہ کے اہلکار کسی غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ قانون اور ضابطوں کی بجائے جی حضوری اور اپنی من مرضی کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ 
تھانوں میں خیر پہلے بھی عام آدمی کی شنوائی کم ہی ہوتی تھی لیکن سنگین مقدمات میں پھر بھی کچھ نہ کچھ مداوا کیا جاتا تھا اور تھوڑی بہت اشک شوئی ہو جاتی تھی لیکن اب تو عام پولیس والا بھی اپنی من مانی پر اتر آیا ہے۔ آئی جی صاحب نے عام لوگوں کی شنوائی کیلئے 1787 متعارف کروائی۔ وہاں جن کی شکایت پر عمل ہوجاتا ہو گا وہ خوش قسمت ہوں گے ورنہ ہم نے تو کئی لوگوں کو روتے دیکھا ہے کہ ہماری کہیں نہیں سنی جاتی۔ 
ایسے ہی ایک واقعہ بارے میں ہم بھی زنجیر عدل ہلا دیتے ہیں شاید کسی کی شنوائی ہو سکے۔ سبزہ زار لاہور کا فیصل نامی شہری پولٹری کا کام کرتا ہے اس نے لاہور سے باہر سے مرغیاں لانے کیلئے مزدا ٹرک ایل ای ایس 4190 بنایا ہوا ہے۔
 13 اگست 2023 کو اس کاڈرائیور عبدالرزاق دوہیلپروں رانا تنزیل اور شاہد بھٹی کے ہمراہ کوٹ رادھا کشن قصور کے قریب آصف پولٹری فارم سے مرغیاں لینے گئے اور تین ہزار کلو گرام وزن کی ساڑھے دس لاکھ روپے مالیت کی مرغیاں لوڈ کر کے لاہور کو روانہ ہوئے۔ مین سڑک پر چند کلو میٹر ہی آئے تھے کہ دو کاروں پر مسلح 6 افراد نے انھیں زبردستی روک لیا اور تینوں کو اسلحہ کے زور پر اغوا کر کے گاڑیوں میں بیٹھا لیا انکی جیبوں سے زبردستی موبائل فون اور نقدی بھی نکال لی۔ فیصل نے حسب روایت فون کر کے اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ نے مال لوڈ کر لیا ہے تو اس کا فون بند ملا۔ دونوں ہیلپروں کے فون بھی بند ملے پولٹری فارم والے کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ تھوڑی دیر پہلے وہ مرغیاں لوڈ کر کے جا چکے ہیں۔ اس کو تشویش ہوئی وہ موقع پر پہنچا اور وہاں جا کر 15 پر کال کی۔ 
پولیس والوں نے نامعلوم افراد کیخلاف ڈکیتی کا مقدمہ نمبر 1358/23 درج کر لیا۔ اسی اثنا میں پولیس نے مقامی لوگوں سے معلومات اکٹھی کیں تو انھیں ایک کار کا نمبر کسی نے دے دیا جس کو ٹریس کیا گیا تو وہ عاصم بنگش سکنہ سبزہ زار لاہور کی نکلی۔
 عاصم کے بھائی عمران بنگش کا فیصل سے کاروباری لین دین تھا۔ عمران بنگش نے منصوبہ بندی کے تحت اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ڈکیتی اور اغوا کی واردات کی۔ مال سے بھرا ہوا ٹرک نہ جانے کہاں غائب کر دیا ڈرائیور اور ہیلپروں کو اغوا کر کیسگیاں پل لاہور کے قریب کسی فارم ہاوس پر لے گئے جہاں ان پر تشدد کے بعد ان کی ویڈیو بنا کر انھیں ٹھوکر نیاز بیگ کے پاس پھینک کر چلے گئے۔
 پولیس ابتدائی طور پر تو متحرک دکھائی دی لیکن جب معاملہ ٹریس ہوا تو عمران بنگش کے والد ممتاز بنگش کے اثرورسوخ کے باعث پولیس اب اسے لین دین کا تنازعہ قرار دے کر کارروائی کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ 
مدعی کا کہنا ہے کہ میں قصور جا جا کر تھک گیا ہوں تفتیشی سب انسپکٹر عمر حیات کا کہنا ہے کہ مجھے ایس ایچ او نے کارروائی سے روک رکھا ہے۔ کوٹ رادھا کشن کے ایس ایچ او طاہر محمود خان کاکہنا ہے کہ مجھے اوپر سے حکم ہے کہ پرچہ خارج کر دو۔ بہتر ہے تم صلح کر لو۔ میں نے تبدیلی تفتیشی کیلئے ڈی پی او کو درخواست دے رکھی ہے اس پر بھی ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ میرا 40 لاکھ روپے مالیت کا ٹرک غائب ہے ساڑھے دس لاکھ کا میرا مال تھا میرا روزگار ختم ہو گیا ہے نوبت فاقوں تک آپہنچی ہے۔ پولیس میرا مال برآمد کرنے اور ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے الٹا مجھے ڈرا دھمکا رہی ہے اور اسے لین دین قرار دے کر رفع دفع کر رہی ہے۔ 
آئی جی صاحب اگر آپ نے ہر بااثر افراد کو یہ اختیار دے دیا کہ آپ زبردستی گاڑیاں چھین کر لوگوں کو اغوا کرکے اپنے لین دین کے معاملات حل کر لیں تو یقین کریں خانہ جنگی دور نہیں۔ براہ کرم ملک میں کچھ تو قانون کا احترام باقی رہنے دیں۔ متعلقہ پولیس حکام کو قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کریں تاکہ قانون کا بول بالا ہو سکے۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن