منگل ‘ 18 صفر المظفر 1445ھ ‘ 5 ستمبر 2023ء
افغان کرنسی مستحکم‘ ڈالر کے استعمال پر پابندی‘ مہنگائی میں 9 فیصد کمی
اب لاکھ افغانستان کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی جائے۔ تعلیم و خواتین کے مسئلے پر عالمی برادری شور مچائے مگر طالبان کی موجودہ حکومت کے دور میں جس طرح چاہے ڈنڈے کے زور پر ہی سہی‘ اس ’’وار لارڈز‘‘ کے ملک میں امن و امان کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ وہ قابل تعریف ہے۔ صرف یہی نہیں‘ وہاں کی کرنسی جو ٹکے ٹوکری ہو چکی تھی۔ ایک مرتبہ پھر مستحکم ہو رہی ہے۔ کہاں ایک ہزار پاکستانی روپے کے بدلے میں تھیلا بھر کر افغانی کرنسی ملتی تھی‘ کہاں اب وہ ہمارے روپے سے بہتر پوزیشن پر چلی گئی ہے۔ وہاں پالیسیاں صرف بنانے کیلئے نہیں ہوتیں۔ وہاں طاقت کے بل بوتے پر حکومت اپنے احکامات نافذ کرتی ہے اور منواتی بھی ہے۔ کیا مجال ہے کوئی چوں چراں کرے۔ اس کے باوجود کہ پاکستان سے بھاری تعداد میں ڈالر افغانستان سمگل ہوتا ہے۔ وہاں ڈالر کے استعمال پر پابندی ہے جس کی وجہ سے ان کی کرنسی پائیدار ہو رہی ہے۔ مصنوعی گرانی پیدا کرنے والے خوفزدہ رہتے ہیں کہ ایسا کرنے پر انہیں کسی چوراہے پر نشان عبرت بنایا جا سکتا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قلت کے باوجود وہاں مہنگائی میں جی ہاں گرانی میں 9 فیصد کمی آئی ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں حقیقت ہے۔ یہ صرف ڈالر کو لگام ڈالنے اور ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت ایکشن کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب انتظامیہ پیدل گشت کرتی ہو‘ بازاروں میں قیمتیں کنٹرول میں رہتی ہیں۔ ہماری طرح اے سی والے کمروں‘ گاڑیوں میں بیٹھ کر ہٹو بچو کی صدائوں میں جھوٹی شان و شوکت اور گارڈز کے جلو میں چکر لگانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ سخت تعدیب کا خوف ہی ہے جو بہت سے انسانوں کو سرکشی سے روکتا ہے اور قانون کا بول بالا ہوتا ہے جو ہمارے ہاں نمائشی اقدامات کی وجہ سے نہیں ہوتا اور لوٹ مار جاری رہتی ہے۔ نہ روپیہ اوپر جاتا ہے نہ مہنگائی نیچے آتی ہے۔
٭٭……٭٭
فحش ڈانس پر گوجرانوالہ‘ فیصل آباد آرٹس کونسل کے سربراہ برطرف
یہ تو غلط بات لگتی ہے کہ ناچ کرے کوئی اور برطرف ہو کوئی۔ سخت پابندیاں تو ڈانسرز پر بھی لگنی چاہیے۔ یہ جو تھیٹر ہیں‘ یہ ہمارے فلمی زوال کا آخری تحفہ ہیں۔ فلمی دنیا اجڑنے سے یہ ایک نئی دنیا وجود میں آئی جو پہلے ادوار میں خاصا مہذب تھی۔ اب بے لگام ہو چکی ہے۔ فلمی دنیا سے قبل برصغیر میں تھیٹر کا راج تھا جسے کوئی نوٹنکی کہتا اورکوئی منڈوا۔ میلے ٹھیلوں میں موسمی تہواروں سے سے لیکر عام دنوں میں بھی شہر شہر گائوں گائوں بڑے بڑے چھوٹے چھوٹے تھیٹر کمپنیوں والے عوام کا دل بہلانے کیلئے اپنے اپنے انداز میں تھیٹر لگاتے اور پیسہ کماتے تھے۔ اس دور میں بھی ان تھیٹروں میں ناچنے اور گانے والوں کا وجود ایک لازمی جز تھا۔ آخر لوگ وہاں بھاشن سننے تو جاتے نہیں تھے۔ تفریح کیلئے ٹکٹ خرید کر دل بہلانے جاتے تھے۔ پہلے پہل تو مرد حضرات ہی میک اپ کرکے زنانہ لباس پہن کر نرت بھائو دکھاتے لوگوں کا دل بہلاتے تھے۔ پھر خواتین بھی اس شعبہ میں آئیں تو ان کے ناز و ادا اور جلوئوں نے تھیٹر کی دنیا میں بھی تہلکہ مچا دیا۔ اب وہ نرت بھائو نہیں رہا۔ سیدھے سبھائومیں لچک مٹک کر لوگوں کے دل بہلانے لگیں۔ ہمارے ہاں جب فلمی زوال آیا تو اس وقت فلمی دنیا میں بھی فحش رقص اور غیر مہذب زبان و بیان کو عروج حاصل تھا۔ وہی سب کچھ اور زیادہ بے ہودگی کے ساتھ تھیٹر میں آن بسا۔ فحش لباس‘ فحش گوئی‘ فحش اشارے اور ناچ گانے نے تو طوفان برپا کر دیا۔ عام تماشائی خود بھی عالم مستی میں آکر ناچنے لگتے تھے۔ اب حکومت اس طوفان بدتمیزی پر قابو پانے میں کوشاں ہے۔ ان پر قانونی گرفت مضبوط کی جا رہی ہے تاکہ مزید بداخلاقی نہ پھیلے۔اسی عمل کی زد میں آکر برطرفیاں بھی ہورہی ہیں۔
٭٭……٭٭
شوہر کو اغوا کیا گیا‘ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں: حریم شاہ
اب یہ وقت بھی آنا تھا کہ حریم شاہ کے شوہر کو بھی بقول ان کے اغوا کر لیا گیا ہے۔ کیا معلوم وہ خود ہی کہیں بھاگ نکلے ہوں۔ آخر حریم شاہ جیسی دبنگ ٹک ٹاکر کے ساتھ رہنا ازخود بڑے دل والے کا کام ہے۔ ہو سکتا ہے وہ بھی اپنی کسی ویڈیو کی وجہ سے یہ سب کچھ بادل نخواستہ برداشت کر رہا ہو۔ آخر حریم شاہ کو ٹک ٹاکروں کی دنیا میں ویڈیو کوئین کا درجہ حاصل ہے۔ نجانے اس نے کہاں کہا ں سے ہر ایک کی ویڈیو حاصل کی ہوئی ہے یا خود بنائی ہوئی ہے۔ وزیراعظم ہائوس سے لیکر وزارت خارجہ کے دفاتر تک اس کی دسترس میں نظر آتے ہیں۔ ہر بڑے شخص کے ساتھ اس کی تصاویر اور ویڈیو نجانے کون کون سے راز طشت ازبام کرتے نظر آتے ہیں۔ اور تو اور کسی کے خوابگاہ‘ کسی کے مہمان خانے میں بسر ہونے والے لمحات تک کی ویڈیوز کی وہ علی اعلان دھمکیاں۔وہ رعب جھاڑتی پھرتی ہیں۔ دروغ برگردن راوی اطلاعات کے مطابق ساری ویڈیوز ان کے شوہر نامدار کے پاس ہی محفوظ ہیں۔ اسے ہم ویڈیو بنک بھی کہہ سکتے ہیں۔ بروزن بلڈ بنک۔ ہاں حریم شاہ کی یہ دھائی برحق ہے کہ ان کے شوہر کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی وہ مکمل طورپر غیرسیاسی ہیں۔ کیا پتہ اغوا کنندگان اب ویڈیوز طلب کریں یا بھاری تاوان وصول کرنے کا سندیسہ دیں۔ دونوں حالات میں مسئلہ تو حریم شاہ نے ہی سلجھانا ہے۔ ویسے یہ کسی بلیک میل ہونے والے زخمی دل کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے جو حریم شاہ سے بدلہ لینا چاہتا ہو یا انکے میاں نے خود غوا کا ڈرامہ رچایا ہو‘ اپنی بیگم سے رقم بٹورنے کیلئے۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ پولیس اس سلسلہ میں فوری کارروائی کرکے مغوی کو برآمد کرائے۔
٭٭……٭٭
برازیل میں خاتون کھانا پکاتے مرچ سونگھنے سے چل بسی
یہ ان خواتین کے لیے ایک سبق ہے یا تازیانہ عبرت جو کھانا پکاتے ہوئے کئی بوٹیاں سالن چکھنے کے نام پر یا کھانا پکاتے ہوئے کئی روٹیوں سمیت ہڑپ کر جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں اس کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ برصغیر میں البتہ اسے کھانے میں خیانت کہہ کر بڑی بوڑھیوں نے خوف و ہراس پھیلایا تھا جو اپنی بہو بیٹیوں کو اس طرح بریانی ، گوشت اور روٹیاں ، پکاتے ہوئے کھاتا دیکھ کر خود جل بھن کر کباب ہو جاتی تھیں۔ سو انہوں نے اس طرح تقدس آمیز حکایت گھڑیں اور معصوم بھولی بھالی لڑکیاں کھانا پکاتے ہوئے اسے چکھنے سے سونگھنے سے زیادہ کوئی حرکت بھی گناہ سمجھنے لگیں۔ مگر اس کے باوجود چٹخوری خواتین کہاں باز آتی ہیں۔ وہ تو کچن میں آتے جاتے سالن سے بوٹی اور بریانی سے دوچار لقمے کھا کر ہی منہ پونچھتے ہوئے باہر آتی ہیں۔ اب اس برازیلین خاتون کی قسمت خراب تھی اسے بھلا کس نے کہا تھا کہ وہ کالی مرچوں کی خوشبو سونگھیں۔ یہ مہک اس کے لیے مہلک ثابت ہو کئی اور وہ سونگھتے ہی چل بسی۔ اگر وہ بوٹی گلے میں پھنسنے پر دم گھٹنے سے مرتی تو شاید اتنی بڑی خبر نہ ہوتی مگر یہ مرچ سونگھ کر مرنا واقعی حیرت کی بات ہے۔ نجانییہ کونسی قاتل کالی مرچیں تھیں۔ ایشائی ممالک میں تیز ذائقہ وار مصالحوں میں کالی مرچ ، تیز پات، لونگ وغیرہ کا استعمال عام ہے۔ اب خواتین کو اس حادثے کے بعد مرچ مصالحے سونگھنے سے اجتناب کرنا ہو گا۔ کیا معلوم کہاں کوئی قاتل خوشبو ڈیرے ڈالی بیٹھی ہو۔
٭٭٭٭٭