دوررس نتائج کے حامل کورکمانڈرز کانفرنس کے فیصلے
چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی زیرصدارت منعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس میں طے کیا گیا ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی زیرنگرانی حکومتی معاشی سرگرمیوں کی مکمل حمایت کی جائیگی اور معیشت و سرمایہ کاری کو نقصان پہنچانے والی غیرقانونی سرگرمیوں کے خاتمہ کیلئے حکومت کی مکمل معاونت کی جائیگی۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کی زیرصدارت گزشتہ روز جی ایچ کیو میں منعقد ہونیوالی کورکمانڈرز کانفرنس میں اس امر کا دوٹوک اظہار کیا گیا کہ اداروں اور عوام میں خلیج پیدا کرنے کیلئے پراپیگنڈا کرنیوالے عناصر مایوس اور مزید رسوا ہونگے۔ خطرات کیخلاف ملکی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا بھرپور دفاع کیا جائیگا اور ریاست دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں سے مکمل طاقت کے ساتھ نمٹے گی۔ کورکمانڈرز کے شرکاءنے ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پائیدار امن و ترقی پر زور دیا اور کہا کہ ریاست اور مسلح افواج شہداءاور انکے اہل خانہ کو ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ آرمی چیف نے اپریشنز کے دوران پیشہ ورانہ مہارت کا معیار برقرار رکھنے اور فارمیشنز کی تربیت کے دوران بہترین کارکردگی کے حصول پر زور دیا۔ انہوں نے فوجی جوانوں کے حوصلے بلند رکھنے اور انکی فلاح و بہبود پر مسلسل توجہ مرکوز رکھنے کے حوالے سے کمانڈرز کی ستائش کی۔ کانفرنس کے شرکاءکو قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز اور بڑھتے خطرات کے جواب میں طے کردہ حکمت عملی پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں شہداءکو ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری ارض وطن کو تشکیل پاکستان کے وقت سے ہی اپنے پڑوسی بھارت کی جانب سے ملکی سلامتی سے متعلق چیلنجز درپیش ہیں جو نہ صرف خود پاکستان پر تین بار جارحیت کا ارتکاب کر چکا ہے بلکہ اسکے ایماءاور سرپرستی میں ملک کے اندر موجود بدخواہ عناصر بھی پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کیخلاف اپنی سازشوں کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بدنیتی کے تحت ہی خودمختار ریاست جموں و کشمیرپر اپنا تسلط جمایا اور اسکے راستے سے پاکستان آنیوالے دریاﺅں پر سندھ طاس معاہدے سے روگردانی کرتے ہوئے سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کرکےان دریاﺅں کا پانی اپنے کنٹرول میں کرلیا۔ چنانچہ وہ پاکستان پر باقاعدہ جنگ کی صورت میں جارحیت کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر آبی دہشت گردی بھی مسلط کرتا رہتا ہے۔ پاکستان میں موجود اپنے شردھالوﺅں کو ہلہ شیری دیکر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ پایہ¿ تکمیل کو نہ پہنچنے دینا بھی ایسی ہی بھارتی سازشوں کا حصہ ہے جبکہ امریکی نائن الیون کے بعد افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکی نیٹو فورسز کی شروع کردہ جنگ کے دوران بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کا نادر موقع ملا جس نے کابل حکومت کی معاونت سے پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان میں اپنا دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلا دیا۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے ہی بھارتی ایجنسی ”را“ نے اپنے دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر تربیت دیکر انہیں پاک افغان سرحد کے ذریعے پاکستان میں داخل کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور انہی دہشت گردوں نے ملک میں فرقہ واریت کی آگ سلگا کر بھی دہشت گردی کے راستے نکالے جبکہ امریکی ڈرون حملوں کے ردعمل میں طالبان انتہاءپسندوں کی جانب سے شروع کی گئی دہشت گردی کی کارروائیوں بشمول خودکش حملوں کیلئے بھی دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کی بھارتی ”را“ کی جانب سے سرپرستی کی جاتی رہی۔
ملک کے اندر اور باہر سے پاکستان کی سلامتی و خودمختاری اور اسکے سیاسی و اقتصادی استحکام کو یہی بڑے چیلنجز درپیش رہے اور اب تک موجود ہیں جن سے عہدہ برا ہونا محافظ پاکستان کی حیثیت سے افواج پاکستان کی ہی ذمہ داری ہے جنہیں آئین پاکستان نے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اندرون ملک انتشارو خلفشار اور ملک کو اندرونی طور پر عدم استحکام کا شکار کرنے کی نیت سے کی جانیوالی سازشوں پر قابو پانے کی ذمہ داری بھی تفویض کر رکھی ہے جو اس نے حکومت کی جانب سے معاونت طلب کرنے پر سرانجام دینا ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں افواج پاکستان نے جہاں بھارتی جارحیت کیخلاف ملک کی سرحدوں کا دفاع کرتے ہوئے شہادتوں اور قربانیوں کی انمٹ داستانیں رقم کیں‘ وہیں افواج پاکستان نے اپنی قیادتوں کے ماتحت ملک کے اندر دشمن کی پھیلائی دہشت گردی کے تدارک کیلئے بھی ارض وطن پر جانیں نچھاور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ حقیقت تو اقوام عالم کی جانب سے بھی اعتراف شدہ ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان‘ اسکے عوام اور افواجِ پاکستان نے دی ہیں جس کے دس ہزار سے زائد فوجی افسران اور جوانوں سمیت ملک کے مجموعی 80 ہزار شہریوں نے اس جنگ میں شہادت کا درجہ پایا ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز آج بھی وحشی دہشت گردوں سے برسر پیکار ہیں اور اب طالبان کی عبوری افغان حکومت نے بھی پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی سازشوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی چنانچہ آج بیک وقت بھارت اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کو اپنی سلامتی و تحفظ کے چیلنجز درپیش ہیں جن سے افواج پاکستان اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر خوش اسلوبی سے عہدہ برا ہو رہی ہیں۔
اسکے ساتھ ساتھ گزشتہ دو سال سے زائد عرصہ سے پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشیں بھی کارفرما ہیں اور ان سازشی عناصر کو بھی جو ہماری بعض سیاسی جماعتوں کی صفوں میں موجود ہیں، اعلانیہ اور خفیہ طور پر بھارت کی ہی سرپرستی حاصل ہے جنہوں نے پاکستان میں سیاسی منافرتیں پھیلا کر او ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان کیخلاف سوشل میڈیا پر زہریلا پراپیگنڈا کرکے قومی سیاست کو راندہ درگاہ بنانے اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس معاملہ میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ کے بعد ملک میں اودھم مچانے کا سلسلہ شروع ہوا جس کے قومی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے۔ رواں سال 9 مئی کو جس نفرت انگیز انداز میں افواج پاکستان کو ہدف پر رکھ کر فوجی عمارتوں اور تنصیبات پر حملے کئے گئے‘ انہیں نذر آتش کیا گیا اور شہداءکے مجسموں تک کو اکھاڑ پھینکا گیا‘ وہ ملک کے ساتھ غداری کے ہی مترادف تھا۔
ان عناصر نے ہی ملک میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام پیدا کرنے کی سازشیں کیں جس کا خمیازہ آج بدترین مہنگائی اور قومی معیشت کے دیوالیہ ہونے کی حد تک جا پہنچنے کی صورت میں ملک اور عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ ملک کا سسٹم بھی انہی گھناﺅنی سازشوں کے باعث ہچکولے کھاتا نظر آرہا ہے۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ ملک کے بدخواہوں کے پیدا کردہ بحرانوں کے ملک کی سیاست و معیشت پر مرتب ہونیوالے برے اثرات کا ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو نہ صرف مکمل ادراک ہے بلکہ ان سے عہدہ برا ¿ہونے کیلئے بھی وہ مکمل یکجہت ہیں۔ گزشتہ روز کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی ملک کو درپیش چیلنجوں کے تناظر میں ہی ملک کی معیشت و سیاست کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے جبکہ اس سے قبل بھی آرمی چیف جنرل عاصم منیر ملکی معیشت کو پٹڑی پر چڑھانے کے عملی اقدامات اٹھا چکے ہیں جس کے فوری اور خوشگوار اثرات قومی معیشت کے استحکام کی جانب گامزن ہونے کی صورت میں نظر آرہے ہیں۔ قومی معیشت مستحکم ہو گی تو یقیناً ملک سیاسی استحکام کی جانب بھی گامزن ہو جائیگا۔