گرانی، مایوسی اور نقل مکانی
کبھی باہمی ملاقاتوں میں مسکان بھرے لہجوں کے ساتھ ایک دوسرے سے حال چال اور خَیر خیریت پوچھنا ایک روایتی و رواجی فعل ہوا کرتا تھا. بچوں کی معصوم شرارتیں اور دلفریب شوخیاں بڑے چاو¿ سے زیرِ بحث لائی جاتی تھیں اور ا?س کے بعد حسبِ ذوق خاندانی، ملکی، ادبی یا معاشرتی مسائل پر گفتگو ہوا کرتی تھی. جب مکالمہ بازی کے دورانیے میں کوئی وقفہ آتا تو فوراً کسی ایک مخاطب کی طرف سے "اور سنائیں" کہہ کر نئے سرے سے سلسلہء کلام جاری رکھا جاتا تھا. یہ دو اکھروں پر مشتمل ننھا منا سا شریر فقرہ پہلی اور نئی گفتگو کے دوران ایک پل کا کام دیتا تھا. لمبی بات چیت میں ایسے پلوں کی تعداد حسبِ طوالت بڑھتی جاتی تھی. گویا "اور سنائیں" نئے اور دلچسپ موضوعات کا قفل کھولنے کے لئے چابی کا کام دیا کرتا تھا مگر تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی ابتری اور معاشی زبوں حالی میں اب حال چال اور خَیر خَیرِیَّت پوچھنے کی بجائے ایک دوسرے سے رواں ماہ کے بجلی کے بل کے بارے میں استفسار کیا جاتا ہے. پھر حالات کے ستائے ملاقاتی کبھی واپڈا حکام کو کوستے ہیں، کبھی حکومتِ وقت پر گرجتے ہیں اور کبھی اپنے ناتواں مقدر پر برستے ہیں.
مسئلہ صرف بجلی صرف کرنے پر فی یونٹ نرخ بڑھانے کا نہیں بلکہ اِس کے نام پر بننے والے بل پر واپڈا اور حکومت کی جانب سے علمِ ریاضی کی شق وار کی گئی مشقیں اور مشقتیں ہیں جو سراسر ناانصافی کے زمرے میں آتی ہیں. اصولی طور پر تو ہر قسم کی چوری کا قضیہ چور اور کوتوال کے درمیان ہی رہنا چاہیے. بھلا اِس چوری کا سادھ سے کیا واسطہ؟ چوری شدہ بجلی کا بوجھ سادھ پر ڈالنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اتنے عرصے سے سادھ کے رتبے پر فائز کیوں ہے؟ ابھی تک چور کا درجہ اور مقام کیوں حاصل نہیں کر سکا ؟ جو انتظامیہ دہائیوں سے ہاتھوں کے آہنی ہونے کے بار بار دعوے اور اعلانات دہرانے کے باوجود بجلی کی چوری نہیں روک سکی، اندازہ لگائیں! وہ دیگر ریاستی اور حکومتی امور کیسے سر انجام دیتی ہوگی؟ چوری شدہ بجلی کے اعدادوشمار سے اِس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی قریب و بعید کی حکومتوں نے اِس چوری کی روک تھام کے لئے کوئی سنجیدہ کاوشیں نہیں کیں. بے چارہ عام صارف مکمل جمع تفریق کرنے کے بعد بجلی کا بٹن دباتا ہے. واپڈا کی جانب سے اعلان شدہ peak hours میں بجلی کا استعمال تو گویا روزانہ کی بنیاد پر پل صراط پر سے گزرنے کے مترادف ہے. مختلف قسم کی احتیاطیں اِس حد تک ہمارے لاشعور میں رچ بس گئی ہیں کہ بھولے سے کبھی گھر میں کوئی فالتو لائٹ جلتی یا پنکھا چلتا نظر آ جائے تو اسے بند کرنے سے پہلے ہی ایک ناخوشگوار سا شور مچ جاتا ہے.
دو ہفتے قبل ایک سابق وفاقی وزیر سے ملاقات کا اتفاق ہوا. بتانے لگے، "میرے گھر کا بجلی کا بل ایک لاکھ پینتیس ہزار آیا تو میں نے متفکر ہو کر کہا کہ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو باڑی (زرعی زمین) بیچ کر بل ادا کرنا پڑے گا". اِس پر پاس کھڑی نوکرانی کہنے لگی، " صاحب جی! میرا گھر تو دو چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل ہے. ایک پنکھا چلتا ہے، ایک لائٹ جلتی ہے اور تھوڑی دیر کے لئے پانی والی موٹر چلائی جاتی ہے. میرا بل چھ ہزار آیا ہے اور میرے پاس تو بیچنے کے لئے 'باڑی' بھی نہیں ہے". ایسی باتیں سن کر دھیان ان مزدور پیشہ لوگوں کی طرف جاتا ہے جو کرائے کے مکانوں میں رہ کر جسم و جاں کا رشتہ نجانے کیسے برقرار رکھ رہے ہیں.
مانا کہ سابقہ حکومتوں کے دور میں کئے گئے آئی پی پیز کے معاہدوں سے انحراف کرنا ممکن نہیں مگر کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر تو اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا میں سستی ترین پن بجلی ہی ہے. سستی بجلی ہی زراعت اور صنعت کی ترقی میں ممدومعاون ثابت ہو سکتی ہے. بھارت نے ہمارے ہی دریاو¿ں پر بند باندھ کر درجنوں ڈیم بنا لئے ہیں اور عوام کو سستی بجلی فراہم کرکے ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں. ہم باہمی راند کی مشقوں میں اضافہ کرکے دنیا کو مفت میں تفریح فراہم کر رہے ہیں. قومی سوچ کی بجائے اپنے ووٹ بنک کے تحفظ اور اَنانِیَت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا. بجلی کے ساتھ ساتھ پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے مہنگائی کا مقام بلند ترین اور عوامی قوتِ خرید کا گراف پست ترین سطح کو چھو رہا ہے جس سے معاشی زبوں حالی کے علاوہ سماجی مسائل بھی شدت سے جنم لے رہے ہیں اور قوم میں اِن معاشی اور معاشرتی مسائل کے انبار کی وجہ سے مایوسی کا عنصر بڑھ رہا ہے. اِس حوالے سے پڑھے لکھے اور متمول طبقے کا نقل مکانی کرنے کا رجحان معنی خیز حیثیت حاصل کر گیا ہے. مایوسی کو گناہ اور غربت کو لعنت اِسی لئے تو قرار دیا گیا ہے کہ یہ دونوں قباحتیں مل کر انسان کو بآسانی مائل بہ کفر کرنے کے علاوہ معاشرے میں افراتفری، عدم استحکام اور بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بھی بنتی ہیں. 1983 میں معروف بینکار محمد یونس نے گرامین بینک کے نام سے بنگلہ دیش میں غریب لوگوں، خصوصاً عورتوں کو کم قیمت کے قرضے دینے شروع کئے۔ جن خواتین کے کاروبار کسی وجہ سے نہ چل سکے، انکو اِن قرضوں کی ادائیگی کےلئے اپنا بہت کچھ بیچنے اور گنوانے پر مجبور ہونا پڑا.
گذشتہ چند دنوں سے گرے مارکیٹ میں ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا تو گرے مارکیٹ کا کام بند ہونے یا رکنے کی وجہ سے اِس کی سبک رفتار اڑان نہ صرف رک گئی بلکہ اس میں تنزلی بھی دیکھنے میں آئی. ڈالر کی رسد میں کوئی اضافہ نہ ہونے کے باوجود فقط پشاور میں دو بڑی غیر لائسنس یافتہ کمپنیوں کے خلاف ایکشن اور ایکسچینج کمپنیوں سے جانچ پڑتال سے اگر بہتری لائی جا سکتی ہے تو ایسا ایکشن مستقل بنیادوں پر پوری تندہی اور جذبے سے جاری رہنا چاہیے اور بغیر لائسنس غیر قانونی دھندہ کرنے پر سخت سزا بھی ملنی چاہیے. اِسی طرح اگر بلا تفریق بجلی چوروں کے خلاف بھی سخت ترین کارروائی کی جائے تو ا?س کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں. نگران حکومت کو چونکہ اپنا ووٹ بنک متاثر ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا، سو اس کو تاجروں کیلئے یکم اکتوبر سے 15 فروری تک مغرب ہوتے ہی دوکانیں اور کاروبار بند کرانے کی زیرِ غور تجویز پر عملدرآمد بھی کرانا چائیے. پانچ ہزار کا نوٹ اور ڈالر کی فزیکل موومنٹ بند کرنے سے بہتری آتی ہے تو شبر زیدی کی تجویز کو سنجیدگی سے لینا چاہئیے.