• news

”چہلم امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ !“

معزز قارئین !۔10 محرم ا±لحرام 61 ہجری کو کربلا کے میدان میں نواسہ¿ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم، فرزند ِحضرت علی مرتضیٰؓ و خاتون جنت سیّدہ فاطمة ا±لزہراؓ امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ اور 72 شہدائے کربلا کی شہادت کو پاکستان سمیت د±نیا کے سبھی اسلامی ملکوں میں ملّت اسلامیہ اپنے اپنے انداز میں تلاوت ِ قرآن کریم محافل درودو سلام کا نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہے۔ 10 محرم ا±لحرام کو سانحہ کربلا اور 20 صفر ا±لمظفر کو یوم چہلم خاص طور پر منانے کا اہتمام کِیا جاتا ہے۔ سانحہ کربلا کے بارے د±نیابھر میں عربی، فارسی، ا±ردو اور بے شمار مختلف زبانوں میں مسلمان (اور غیر مسلم) شاعروں نے بھی حسینیت کی عظمت کو بیان کرتے ہ±وئے بے شمار منقبتیں لکھیں اور شائع کیں اور ا±س کے ساتھ ہی یزیدیت کی مذمت میں شعروں اور نثر میں اپنے اپنے فن کا خوب اظہار کِیا اور آج بھی کِیا جا رہا ہے۔ مختلف اوقات میں مسلمان اپنے اولیائے کرام کی منقبتوں کو خاص طور پر یاد رکھتے ہیں اور اِس طرح حسینیتؓ کا عَلم بلند کرنے کا ثواب حاصل کرتے رہتے ہیں۔ معزز قارئین! یوں تو قدیم (متحدہ ) ہندوستان میں بہت سے اولیائے کرام کی آمد آمداور قیام کا دَور دورہ رہا ہے لیکن” فارسی نڑاد ر±وحانی پیشوا ، واعظ ، عالم، فلسفی، صوفی، خواجہ غریب نواز ، نائب رسول فی الہند حضرت معین ا±لدّین چشتی (1142ئ۔ 1236ئ) کا یہ فارسی کلام آج تک حسینیت کو اقوام عالم میں روشن کر رہا ہے۔ خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں کہ ....
” شاہ ہست ح±سینؓ، پادشاہ ہست ح±سینؓ!
دِیں ہست ح±سینؓ ، دِیں پناہ ہست ح±سینؓ!
سَرداد نَداد دست، در دستِ یزید!
حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہست ح±سینؓ!
یعنی ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام ح±سینؓ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام ح±سینؓ ہی ہیں ، (آپ نے دِین کی بقا کے لئے) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا! “۔ معزز قارئین! حقیقت یہ ہے کہ ”لا اِلہ اِلااللہ کی بنیاد ہی امام حسینؓ ہیں۔
” استاد شعرا کا اپنا اپنا انداز ! “
معزز قارئین ! مختلف ادوار میں حسینیت کی عظمت اور یزید کی مذمت میں ا±ستاد شعرا نے اپنا اپنا رنگ پیش کِیا ہے۔ مَیں نے ا±س میں ع±مر اور دَور کی ترتیب قائم نہیں رکھی۔
خاک سے ہے ،خاک کو الفت، تڑپتا ہوں انیس!
کربلا کے واسطے ، میں کربلا میرے لیے!
تو سراپا اجر اے زاہد ،میں سر تا پا گناہ!
باغ جنت تیری خاطر ،کربلا میرے لئے !
(میر ببر علی انیس )
کربلا ہے یہ گلی کیا ،جو نہیں ملتا یاں!
ایک قطرہ بھی ،لبِ خشک کے ،تر کرنے کو!
(غلام ہمدانی مصفحی )
یہ کربلا ہے نذر بلا ،ہم ہوئے کہ تم!
ناموس قافلہ پہ ،فدا ہم ہوئے ،کہ تم!
(رئیس امروہوی )
قتل حسین ?اصل میں ،مرگِ یزید ہے!
اسلام زندہ ہوتا ہے ،ہر کربلا کے بعد!
وقار خون شہیدان ،کربلا کی قسم!
یزید مورچہ جیتا ہے ،جنگ ہارا ہے!
(مولانا محمد علی جوہر )
عاشق رسول ،علامہ محمد اقبال نے اپنے ایک فارسی اور ایک اردو شعر میں کہا کہ ....
” اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر! 
معنی ذبحِ عظیم، آمد پسر! 
یعنی۔ ” ان کے والد کا مرتبہ بائے بسم اللہ کا سا تھا اور سیدنا حسینؓ ذبحِ عظیم کی تعبیر ہیں!“۔
غریب و سادہ و رنگیِں ہے داستانِ حرم !
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعِیل !
پھر کربلا کے بعد دکھائی نہیں دیا!
ایسا کوئی بھی شخص کہ، پیاسا کہیں جسے!
(منور رانا)
فرات چشم پہ ہے ،کربلا کی طغیانی!
درون کوفہ ،دل عید کرنے آیا ہوں!
(تفضیل احمد)
کربلا میں ،ر±خ اصغر کی طرف!
تیر چلتے نہیں، دیکھے جاتے!
( عبد اللہ جاوید)
زمین جب بھی ہوئی ،کربلا ہمارے لئے !
تو آسمان سے ا±ترا، خ±دا ہمارے لئے !
( عبید اللہ علیم)
کہیں صلیب ،کہیں کربلا نظر آئے!
جدھر نگاہ اٹھے، زخم سا نظر آئے!
( امیر قزلباش)
ہوا کربلا میں، جو قربان برقی!
حسینؓ ابن حیدر، کا وہ خانداں تھا!
(برقی اعظمی)
یہاں تو روز، نئی آفتوں سے پالا ہے!
حسینؓ کتنے اب آئیں گے، کربلا کے لئے!
( اعجاز احمد اعجاز)
مجھے وہ چھوڑ کر جب سے ،گیا ہے انتہا ہے!
رگ و پے میں ،فضائے کربلا ہے، انتہا ہے!
( طاہر عدیم )
نگاہ و دل میں وہی ،کربلا کا منظر تھا!
میں تشنہ لب تھی ،مرے سامنے سمندر تھا!
(سیدہ نفیس بانو شمع)
معزز قارئین !۔ مَیں نے امام عالی مقام کی عظمت بیان کرتے ہ±وئے کئی منقبتیں لکھی ہیں لیکن، آج صرف یہ منقبت پیش کر رہا ہ±وں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
صاحب کردار ، فخر مِلّت ، بَیضا حسین ؓ
کار گاہِ ک±ن فکاں میں ، م±نفرد، یکتا حسینؓ !
  سیّد ا±لشہدا حسینؓ
ا±ن کا نصب ا±لعین، تخت و تاج تو ہر گز نہ تھا!
رَزم گاہ میں ، دین کی خاطر تھے ، صف آرا حسینؓ!
  سیّد ا±لشہدا حسین ؓ
پانی پانی ہو رہا تھا ،دِل میں ،دریائے فرات!
کاش آ پہنچیں ، کسی صورت ، لب ِدریا حسینؓ!
  سیّد ا±لشہدا حسینؓ
حضرت مول±ودکعبہ کا ،قبیلہ کٹ گیا!
اِک طرف طاغ±وت سارے ، اِک طرف تنہا حسینؓ !
  سیّد ا±لشہدا حسین ؓ
م±قتدر تو، جیت کر بھی ہوگیا ذِلّت مآب!
حالانکہ تھے ، کربلا میں ، فاتح اَعدا، حسین ؓ !
  سیّد ا±لشہدا حسین ؓ
منتظر تھے ح±ور±و غِلماں ، اَنبیاءاور اَولیاء!
جب درِ فردوس پہنچے ، وارث کعبہ حسینؓ !
  سیّد ا±لشہدا حسینؓ
جان تو دے دِی اثر ، پائی حیاتِ جاوداں !
صاحبِ دوراں بھی ہیں اور صاحبِ فَرداحسینؓ
  سیّد ا±لشہدا حسینؓ

ای پیپر-دی نیشن