قائد اعظم کا پاکستان
پاکستان عطیہ خداوندی قائد اعظم محمد علی جناح کی محنتوں کا ثمر اور علامہ اقبال کے خواب کی حسین تعبیر ہے۔ یہ وہ واحد ملک ہے جس کی تشکیل کے لیے خواب پہلے دیکھا گیا اور اس کی تعبیر اور تعمیر و تشکیل کے لیے کوششیں بعد میں کی گئیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے انگریزوں اور ہندوو¿ں کی عیاری مکاری اور چالاکی کے باوجود پاکستان لے کر دکھایا۔ آ پ کی قائدانہ صلاحیتوں، محنت، بے لوث جذبے اور فہم وفراست کی بدولت آ ج ہم ایک آزاد مملکت میں آزادی کے سانس لے رہے ہیں۔ زندہ قومیں اپنے اسلاف کی اقدار اور روایات کی پاسداری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ایام بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہیں۔ یوم قائد اعظم بھی ہم سے کچھ تقاضے کرتا ہے کہ ہم قائد اعظم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تاکہ ہم صحیح معنوں میں ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں۔
آ ج قائد اعظم کے چودہ نکات صرف نصاب میں رہ گئے ہیں حالانکہ انھیں نکات کو قائد اعظم نے بنیاد بنا کر الگ ملک کے حصول کا مطالبہ کیا اور اسے منوایا بھی ہماری آ ج کی نوجوان نسل آزادی کی اس قیمت سے شاید ابھی واقف نہیں جو لاکھوں جانوں اور اموال اور عزتوں کی قربانی دے کر حاصل کی گئی۔ آ ج ہم یومِ آ زاری پر زور دار باجے بجا کر ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ قائد اعظم جیسا پاکستان چاہتے تھے اور جیسا انھوں نے بنا کر دیا تھا آ ج کا پاکستان ہرگز ایسا نہیں ہے۔ قائد اعظمؒ نے اکثر سرکاری تقاریب اور دفتری میٹنگ میں وقت کی پابندی کرنے اور کفایت شعاری کے عملی نمونے پیش کیے مگر آ ج ہم وقت کی ناقدری کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں بلکہ اسے شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کر رہے ہیں۔ قائد اعظم نے میرٹ کی بالادستی اور سفارش کی حوصلہ شکنی کی بات کی اپنے بھائی کی سفارش کا بھی برا منایا۔ کبھی اپنے عزیز و اقارب کو حکومت کے معاملات میں دخل نہیں دینے دیا۔اس کے برعکس آج ہم نے حکومت اور سیاست میں اقربا پروری اور وراثت کو فروغ دے رکھا ہے۔ حکمرانوں کے مامے چاچے اور چمچے کڑچھے حکومت اور سیاست میں عمل دخل دیتے نظر آتے ہیں۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور سفارش کے بل بوتے پر ہر شاخ پہ الو بیٹھا دیکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کا پاکستان اب مسائلستان بن چکا ہے۔ ہم پہلی اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کشکول ہاتھ میں تھامے ہوئے ہیں اور آ ئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے حکومت اور عوام دونوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے قائد نے جس آزاد ملک میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی بات کی تھی وہ اب عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، اسمگلنگ، جھوٹ، لالچ کے اصولوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کی بجائے اسے تناور درخت بنا دیا گیا ہے اب ہزاروں اور لاکھوں کی بجائے اربوں کی کرپشن کی خبریں گرم ہیں۔ ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قومی مفادات کو قربان کیا جا رہا ہے۔ منافع بخش صنعتوں اور اداروں کو تباہ وبرباد کر کے کوڑیوں کا بنا دیا گیا ہے۔
کاش قائد اعظم کے بعد پاکستان کو ایک بھی ایسا لیڈر مل جاتا جو اس بھٹکی ہوئی قوم کو منزل کی طرف لے جاتا تو آ ج ہم جوں رسوا نہ ہوتے۔ وسائل اور قدرتی نعمتوں سے مالا مال ملک آ ج ہماری بد نیتی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ حکمران اور سیاستدان نظام حکومت اور طرز حکومت کے تجربات میں مصروف ہیں اور عوام بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے مواقع تلاش کرتے ہیں۔ قائد ملت نے کام کام اور کام کا جو سنہرا پیغام دیا تھا اسے ہم نے آ رام آ رام اور صرف آ رام میں تبدیل کردیا ہے۔ جس نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں قائد اعظم کے چودہ نکات کا درس دینے اور ان پر عمل کرانے کی ضرورت تھی وہاں درس گاہوں کو منافع بخش کاروبار تک محدود کر دیا گیا ہے۔ بچوں کے بھاری بستوں کے حساب سے بھاری فیسیں وصول کر کے محض پیسے کمانے والے انسان تیار کیے جارہے ہیں۔ اور بحیثیت مجموعی ہم بے حسی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان دوقومی نظریہ کی بنیاد پر عمل میں آ یا، آ ج نظریہ¿ پاکستان سے زیادہ ہم نظریہ¿ ضرورت کے دلدادہ ہیں۔ آ ج یومِ قائد اعظم ہم سے یہی سوال کرتا ہے کہ ایک لمحے کو ہی سہی مگر ہم سوچیں ضرور کہ کیا یہ قائداعظم کا ہی پاکستان ہے یا اس تصویر میں ہم نے اپنے فائدے مرضی اور ضرورت کے رنگ بھر لیے ہیں حالانکہ ہم میں سے ہر فرد اس ملک اور ملت کی تقدیر بدل سکتا ہے اور قائد ملت کے اس پیغام کو عام کر سکتا ہے:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ