’فاطی، خدا حافظ! لاالٰہ الاللہ محمد الرسول اللہ‘
یہ پراسرار گتھی آج تک حل نہیں ہوسکی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کو شدید بیماری کے عالم میں کوئٹہ سے زیارت منتقل ہونے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔ان کو لے جانے والی گاڑی کا پٹرول کےسے ختم ہوگےا؟قائد اعظم کو جب زیارت میں ایک ماہ قیام کے بعد جب 13 اگست 1948ءکی شام کوئٹہ واپس پہنچے تو انھوں نے اپنی معالجوں سے ےہ کےوںکہا، بہت اچھا کیا کہ آپ مجھے یہاں لے آئے۔ زیارت میں مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پنجرے میں بند ہوں۔قائد اعظم نے اپنے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش کو مخاطب کرکے ےہ کےوں کہا، آپ کو یاد ہے، جب آپ پہلی بار زیارت آئے تھے تو میں زندہ رہنا چاہتا تھا لیکن اب میرا مرنا جینا برابر ہے۔ یہ الفاظ زبان سے ادا کرتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وجہ دریافت کی تو جناح نے فرمایا، میں اپنا کام پورا کرچکا ہوں۔ڈاکٹر الٰہی بخش لکھتے ہیں کہ اس جواب سے میری الجھن اور بڑھ گئی اور خیال ہوا کہ وہ اصل بات پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں اور جو وجہ انھوں نے بیان کی ہے وہ یونہی ٹالنے کے لیے ہے۔ میں رہ رہ کر سوچتا تھا کہ کیا آج سے پانچ ہفتے پہلے ان کا کام نامکمل تھا اور اب یکایک پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ میں یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ کوئی بات ضرور ہے جس نے ان کی جینے کی آرزو مٹا دی ہے۔
یہی واقعہ فاطمہ جناح نے بھی تحریر کیا ہے مگر قدرے مختلف الفاظ میں۔ وہ لکھتی ہیں، اگست کے آخری دنوں میں جناح پر اچانک مایوسی کا غلبہ ہو گیا۔ ایک دن میری آنکھوں میں غور سے دیکھتے ہوئے انھوں نے کہا، ’فاطی، اب مجھے زندہ رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں جتنی جلد چلا جا¶ں، اتنا ہی بہتر ہے۔‘یہ بدشگونی کے الفاظ تھے۔ میں لرز اٹھی، جیسے میں نے بجلی کے ننگے تار کو چھو لیا ہو۔ پھر بھی میں نے صبر و ضبط سے کام لیا اور کہا، آپ جلد ہی اچھے ہو جائینگے۔ ڈاکٹروں کو پوری امید ہے۔میری یہ بات سن کر وہ مسکرائے۔ اس مسکراہٹ میں مرونی چھپی تھی۔ انھوں نے کہا، نہیں، اب میں زندہ رہنا نہیں چاہتا۔اسی روز ڈاکٹر الٰہی بخش نے محترمہ فاطمہ جناح کو بتایا کہ کوئٹہ کی بلندی ان کیلئے موزوں نہیں ہے اس لےے انکے بھائی کو فوراً کراچی لے جانا چاہیے ۔ 11 ستمبر 1948ءکو جناح کو سٹریچر پر ڈال کر طیارے تک پہنچا دیا گیا۔ کوئٹہ سے کراچی تک کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا۔
طیارہ قائد اعظمؒ کو لے کر سہ پہر سوا چار بجے ماڑی پور ایئر پورٹ پر اترا۔ ایئر پورٹ پر ان کا خیر مقدم کرنے والوں میں گورنر جنرل کے ملٹری سیکریٹری لیفٹیننٹ کرنل جیفری نولز کے علاوہ اور کوئی بھی نہ تھا۔ گورنر جنرل کے سٹاف نے انھیں سٹریچر پر ڈال کر فوجی ایمبولینس میں منتقل کیا۔ ایمبولینس نے ابھی فقط چار میل کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اس کا انجن پٹرول ختم ہونے کے باعث ایک جھٹکے ساتھ بند ہوگیا۔قائد کی حالت اس قابل نہیں تھی کہ راستے میں بلاوجہ ایک لمحہ بھی ضائع کیا جاتا۔ ایمبولینس میں شدید حبس کا عالم تھا۔ ہر لمحہ بڑی اذیت میں گزر رہا تھا۔لیکن نہ فوجی ایمبولینس کا انجن درست ہوا اور نہ کوئی اور متبادل انتظام ہوسکا ۔اس موقع پر دارالحکومت میں کسی نے یہ جاننے کی زحمت بھی نہ کی کہ جناح سوا چار بجے ایئر پورٹ پر اترنے کے باوجود ابھی تک گورنر جنرل ہا¶س کیوں نہیں پہنچے۔سری پرکاش نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ’مسٹر جناح کے انتقال کے وقت فرانسیسی سفارت خانے میں کاک ٹیل پارٹی ہو رہی تھی۔ میں نے اس پارٹی میں نواب زادہ لیاقت علی خان سے مسٹر جناح کے آنے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ مسٹر جناح سادہ مزاج آدمی ہیں، اس لیے انھوں نے اس کو پسند نہیں کیا کہ ان کی آمد کے وقت ہنگامہ ہو۔ ایئر پورٹ سے رہائش گاہ تک کا نو میل کا فاصلہ جو زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ میں طے ہوجانا چاہیے تھا تقریباً دو گھنٹے میں طے ہوا، یعنی دو گھنٹے کوئٹہ سے کراچی تک اور دو گھنٹے ایئر پورٹ سے گورنر جنرل ہا¶س تک۔یہ تکلیف دہ سفر جناح نے اس کسمپرسی کے عالم میں کیا کہ ہماری تاریخ میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی ہے اور نہ کوئی توجیہہ۔ گورنر جنرل ہا¶س پہنچنے کے بعد جناح فقط سوا چار گھنٹے زندہ رہے اور اس دوران وہ تقریباً غنودگی کے عالم میں رہے۔11ستمبر 1948ءڈاکٹروں نے بابائے قوم کو طاقت کا ایک انجکشن لگایا اور ڈاکٹر الٰہی بخش کے بقول جب انھوں نے ہوش میں آنے پر جناح سے کہا کہ وہ جلد ہی ٹھیک ہو جائینگے تو انھوں نے آہستگی سے کہا، نہیں۔ میں زندہ نہیں رہوں گا۔ فاطمہ جناح’مائی برادر‘ میں لکھتی ہیں کہ انکے بھائی نے دو گھنٹے کی نیند کے بعد آنکھیں کھولیں، سر اور آنکھوں سے مجھے اپنے قریب بلایا اور میرے ساتھ بات کرنے کی آخری کوشش کی۔ انکے لبوں سے سرگوشی کے عالم میں نکلا، ’فاطی، خدا حافظ! لاالٰہ الاللہ محمد الرسول اللہ۔‘ پھر ان کا سر دائیں جانب کو جھک گےا۔