• news

زیارت سے کراچی تک

شریف فاروق
 بریگیڈیئر(ر) نور حسین کو پاکستان کے باخبر حلقوں میں ممتاز مقام حاصل رہا وہ اول سے لے کر آخرتک قائداعظم کے اے ڈی سی رہے۔ ان کا کہنا تھا:
جب قائداعظم بستر مرگ پر تھے تو لیاقت علی خان، چودھری محمد علی کے ہمراہ تشریف لائے اور بڑی تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے کشمیر سمیت دوسری ہدایات کے علاوہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ان کا جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی پڑھائیں۔انہوںنے ان تمام افواہوں کو بے بنیاد قرار دیا کہ قائداعظم کی کوئٹہ سے آمد اور ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر ایک پھٹیچر ایمبولینس پہنچنے اور ایک دم اس کا پٹرول ختم ہونے اور خرابی ہونے میں کسی کا کوئی سازشی ہاتھ تھا۔ اس ناقابل تصورسانحہ کے بارے میں قائداعظم کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کیا کہتی ہیں ذرا سن لیجئے:
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری؟
زیارت روانگی سے لے کر کراچی آمد تک بانی پاکستان کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح موجود تھیں وہ اپنے بھائی کے اس آخری سفر کے متعلق اپنی کتاب”میرابھائی“ میں لکھتی ہیں:
”تقریباً دو گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم سہ پہر سوا چار بجے کراچی کے ماڑی پور ایئرپورٹ پر اترے یہیں ایک برس قبل قائد ہوائی جہاز سے اترے تھے تو انتہائی پرامید اور پراعتماد تھے کہ وہ پاکستان کو ایک عظیم قوم بنا دیں گے۔ تب ان کے استقبال کے لئے ہزاروں لوگ ایئر پورٹ پر امڈ آئے تھے جن میں وزیر اور سفارت کار بھی شامل تھے مگر اس روز جیسے کہ پہلے ہی ہدایت کی جا چکی تھی ایئرپورٹ پر کوئی بھی نہیں آیا تھا جب ہم طیارے سے باہر نکلے تو ہمارا استقبال کرنے والا پہلا شخص گورنر جنرل کا ملٹری سیکرٹری کرنل جیفرے نولزتھا ۔
قائد کوسٹریچر پر لٹا کر ایک ملٹری ایمبولینس تک لے جایاگیا جوانہیں گورنر جنرل ہاﺅس لے جانے کے لئے ہوائی اڈے پر پہلے ہی سے تیار کھڑی تھی سسٹرڈنہام اور میں قائد کے ساتھ اسی ایمبولینس میں بیٹھ گئیں ایمبولینس انتہائی آہستگی سے چل رہی تھی ہمارے ساتھ آنے والے دوسرے لوگ کاروں کے ذریعے ایئرپورٹ سے روانہ ہوگئے ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر مستری اور گورنر جنرل کا ملٹری سیکرٹری ایمبولینس کے پیچھے گورنر جنرل کی کیڈلک کار میں آ رہے تھے۔
 تقریباً چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایمبولینس کے انجن نے ہچکی لی جیسے کھانس رہا ہو یا سانس لینے کی کوشش کر رہا ہو اور اس کے بعد وہ اچانک بند ہوگیا تقریباً پانچ منٹ بعد میں ایمبولینس سے باہر نکلی تو مجھے بتایا گیا کہ ایمبولینس میں پٹرول ختم ہوگیا ہے ڈرائیور نے بے چینی کے عالم میں انجن کو دیکھنا بھالنا شروع کر دیامگر وہ سٹارٹ نہ ہو سکا جب میں دوبارہ ایمبولینس میں داخل ہوئی تو قائد کے ہاتھ میں آہستہ سے حرکت پیدا ہوئی اور ان کی آنکھوں نے استفہامیہ انداز میں مجھے دیکھا میں نے نیچے جھک کر ان سے کہا”ایمبولینس کا انجن خراب ہوگیا ہے“ انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔
عام طور پر کراچی میں تیز سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جن کے باعث درجہ حرارت کم رہتا ہے اور گرم موسم کی شدت کم ہو جاتی ہے مگر اس روز سمندری ہوائیں نہیں چل رہی تھیں اور گرمی ناقابل برداشت تھی اس تکلیف دہ موسمی صورتحال پر مستزاد بیسیوں مکھیاں تھیں جو ان کے چہرے کے اردگرد منڈلا رہی تھی اور ان میں اتنی طاقت نہیں رہی تھی کہ وہ اپنا ہاتھ ان کے حملے سے بچنے کے لئے اٹھا سکیں۔ سسٹرڈ نہام اور میں دوسری ایمبولینس کے آنے کے انتظار میں باری باری ان کے چہرے پر پنکھا جھلتی رہی ہر منٹ سوہان روح تھا قائد کو کیڈلک کار میں منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ اتنی بڑی نہیں تھی کہ اس میں سٹریچر رکھا جا سکتا اور یوں ہم انتظار کرتے رہے اس امید پر کہ.... اس جگہ کے آس پاس مہاجرین کی سینکڑوں جھگیاں تھیں جو اس بات سے بے خبر اپنے کام میں مشغول تھے کہ ان کے قائد جنہوں نے انہیں ایک وطن دیا ۔ان کے عین درمیان ایک ایمبولینس میں بے یارومددگار پڑے تھے جس کا پٹرول ختم ہو چکا تھا کاریں اپنے راستے پر گامزن تھیں۔ بسیں اور ٹرک چیختے دھاڑتے اپنی اپنی منزلوں کی جانب رواں دواں تھے مگر ہم وہاں ایک ایسی غیر متحرک ایمبولینس میں تھے جو ایک انچ آگے بڑھنے کے بھی قابل نہیں رہی تھی اور اس کے اندر ایک قیمتی زندگی قطرہ قطرہ اور سانس بہ سانس اختتام کی جانب گامزن تھی۔
ہم نے وہاں ایک گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک انتظار کیا میری پوری زندگی میں کوئی گھنٹہ اس ایک گھنٹے سے زیادہ طویل اور کربناک نہیں گزرا پھر ایک دوسری ایمبولینس آئی انہیں سٹریچر پر دوسری ایمبولینس میں منتقل کیا گیا اور یوں ہم بالآخر گورنر جنرل ہاﺅس کے لئے روانہ ہوئے۔ جب انہیں نہایت آرام سے ان کے بستر پر لٹایا گیا تو ڈاکٹر الٰہی بخش کی گھڑی کے مطابق ہمیں ماڑی پور ایئر پورٹ پر اترے دو گھنٹے سے بھی زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ دو گھنٹے کوئٹہ سے کراچی پہنچنے میں لگے اور دو گھنٹے ماڑی پور ایئر پورٹ سے گورنر جنرل ہاﺅس تک پہنچنے میں صرف ہوئے۔
ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کیا اور کہا کہ ہوائی سفر اور ایمبولینس کے تکلیف دہ واقعہ کے باوجود ان کی صحت پر کوئی برے اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ وہ جلد ہی گہری نیند سو گئے اور ڈاکٹر یہ کہتے ہوئے گورنر جنرل ہاﺅس سے چلے گئے کہ وہ جلد ہی واپس آ جائیں گے۔ اب میں اپنے بھائی کے پاس تنہا تھی جو گہری نیند سو رہے تھے۔ میں نے وجدانی طور پر محسوس کیا کہ ان کی پرسکون نیند شمع کے اس آخری شعلے کی مانند ہے جو بجھنے سے پہلے زیادہ نمایاں اور بھرپور ہوا کرتا ہے۔ خاموشی کے اس عالم میں میرا ذہن ان کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ کاش ایسا ہو سکے کہ ڈاکٹر میرا تمام خون نکال کر آپ کے جسم میںداخل کر دیں تاکہ آپ زندہ رہ سکیں۔اس دوران وہ کسی خلل کے بغیر تقریباً دو گھنٹے تک سوتے رہے پھر انہوں نے آنکھیںکھولیں، مجھے دیکھا اور سر اور آنکھوں کے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا۔ انہوں نے بات کرنے کی آخری کوشش کی اور سرگوشی کے انداز میں کہنے لگے:”فاطی، خدا حافظ، لاالہ الاالہ محمد الرسول اللہ“ ان کا سر آہستگی سے قدرے دائیں جانب کو ڈھلک گیا۔ ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔“
10 ستمبر کو قائد کی حالت غیر ہو رہی تھی کراچی واپسی کا فیصلہ ہوا تو انہوں نے اس حالت میں بھی مجھ سے کہاHave you got any thing Important to show me.میں نے کہا”نہیں سر! کچھ نہیں“ اس حالت میں بھی مملکت کے امور کے بارے میں حساس جذبات رکھتے دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ کوئٹہ سے جب ہم روانہ ہوئے تو کراچی پہنچنے کے چند گھنٹے کے بعد ان کی حالت بڑی تشویش ناک ہوگئی۔ میں دم واپسیں تک ان کے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر نے محض تسلی کی خاطر قائداعظم سے 10:10 بجے کہا کہ”سر!آپ زندہ رہیں گے۔“قائداعظم نے کہا”نہیں میں زندہ نہیں رہوں گا۔“ قائداعظم نے اپنے سفر آخرت کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا اور15 منٹ کے اندر اندر بابائے قوم فوت ہو چکے تھے۔ وہ بہت مطمئن انداز میں فوت ہوئے۔ ان کے چہرے پر وفات کے وقت باوقار سنجیدگی نمایاں تھی۔(ازفرخ امین، ڈان کراچی ستمبر11،1949)

ای پیپر-دی نیشن