عام انتخابات آئینی مدت کے اندر ہی ہونے چاہئیں
پاکستان اس وقت کئی طرح کے مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن ان میں سے سب سے اہم مسائل کا تعلق معیشت اور سیاست سے ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو بھی بہت بری طرح متاثر کیا ہے اور اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ عام آدمی ریاست اور اس کے اداروں سے بیزار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دن میں تو نہیں ہوا لیکن حالات کچھ چند مہینوں کے دوران جس تیزی سے بگڑے ہیں انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ڈھلوان پر کھڑے ہیں جہاں سے لڑھکتے ہی جارہے ہیں۔ اتحادی حکومت کے سولہ مہینوں کے دوران ملک میں مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آیا جو عوام کی امیدوں اور امنگوں کو اپنے ساتھ اڑا کر لے گیا۔ اس کے بعد وجود میں آنے والی نگران حکومت نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور عام آدمی پر معاشی بوجھ اس قدر بڑھا دیا گیا کہ وہ سول نافرمانی کے آپشن پر غور کرنے لگا۔
اب نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حجم کے تعین کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی اور وزیر خزانہ کی سربراہی میں ٹاسک فورس پنشن فنڈز کے بہتر انتظام کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی اور ریونیو میں اضافہ کے لیے آپشنز پر غور کرے گی۔ اتوار کو ایک نجی ٹیلیویژن چینل کو دیے گئے انٹرویو کے دوران انوارالحق کاکڑ نے یہ بھی کہا کہ عام انتخابات سینیٹ انتخابات سے قبل ہوجانے چاہئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس بات پر قائل ہیں کہ ایک قابل عمل ریاست بنانے اور معاشی کمزوریوں کی وجہ سے وجود کو لاحق خطرات کو کم کرنے کے لیے اخراجات کو معقول بنانے اور آمدنی میں اضافہ ضروری ہے۔ یہ باتیں ان سے پہلے عنانِ اقتدار سنبھالنے والے بہت سے اور لوگ بھی کہہ چکے ہیں لیکن ان سب کی باتیں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہ تھیں اور ان سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
نگران وزیراعظم کی یہ بات تو درست ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ( ایس آئی ایف سی) مناسب گورننس کے حصول اور ماضی کی ناقص حکمرانی کی وجوہ کو دور کرنے میں معاونت کے لیے کوشاں ہے۔ سول ادارے ماضی میں اپنے کام میں سستی کا شکار تھے لیکن اب فوج کی قیادت نے اپنی تنظیمی طاقت سے سول سروس کے اعتماد کی سطح میں اضافہ کیا ہے جس سے پالیسوں پر عمل درآمد اور اہداف کے حصول کے لیے نئی توانائی پیداہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے تو صرف ایک پہلو کی طرف توجہ دی جائے گی، دیگر پہلووں کے حوالے سے حکومت نے کیا سوچا ہے یا اس سلسلے میں کیا پالیسی بنائی جارہی ہے؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نگران حکومت کے اختیارات بہت ہی محدود ہوتے ہیں اور وہ عوامی ووٹوں سے قائم ہونے والی ایک مستقل حکومت جیسی حیثیت کی حامل نہیں ہوتی، لہٰذا نگران حکومت ایک خاص دائرے سے نکل کر کچھ بھی نہیں کرسکتی۔
اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ عام انتخابات آئینی مدت کے اندر ہوں تاکہ عوامی مینڈیٹ سے ایک مستقل حکومت وجود میں آئے۔ اس حوالے سے نگران وزیراعظم نے مذکورہ انٹرویو کے دوران کیے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ قانون وآئین کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ دے۔مارچ سے پہلے الیکشن ہونے چاہئیں تاکہ مارچ میں ایوان بالا کے نئے ممبران کا انتخاب بروقت ہوسکے۔انھوں نے مزید کہا کہ سیاسی ومعاشی استحکام انصاف سے آتا ہے،ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سوسائٹی اور ریاست میں کن جمہوری رویوں کی اجازت ہونی چاہیے۔ انوارالحق کاکڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اس جگہ پر آگئے ہیں کہ ہم فیصلہ کریں کہ اس معاشرے نے کس طرح آگے بڑھنا ہے،معاشرے میں مثبت رویوں کے فروغ کے لیے فیصلے کرنا ہوں گے۔ اداروں کے بہتر کام کرنے سے ملک ترقی کرتے ہیں۔ماضی کی غلطیوں کی بنیاد پر اپنے لیے رعایتیں مانگنے کا عمل درست نہیں۔ کوئی بھی ملک افراتفری،جلاو گھیراﺅ اور انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا،معاشرے میں مثبت رویوں کے فروغ کے لیے فیصلے کرنا ہوں گے،ماضی قریب کے پرتشدد واقعات کو عوام نے مسترد کیا ہے۔
عوام کا نام لے کر سیاسی بیانات جاری کرنا سیاسی اور حکومتی شخصیات کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔ انوارالحق کاکڑ بھی یہی کررہے ہیں۔ عوام نے تو مہنگائی اور حکومت کی طرف سے ڈالے گئے ناروا معاشی بوجھ کو بھی مسترد کیا ہے اور اس کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ حد یہ ہے کہ اشرافیہ کو دی جانے والی اربوں ڈالرز کی سہولیات و مراعات میں بھی کوئی کمی نہیں کی گئی۔ اگر عوام اور ان کی خواہشات کی واقعی مقتدر حلقوں کو پروا ہوتی تو آج اس ملک کی حالت ایسی نہ ہوتی۔ اگر نگران وزیراعظم واقعی عوام کے بارے میں کوئی ہمدردی رکھتے ہیں تو انھیں تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کر کے عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے سلسلے میں کوشش کرنی چاہیے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانے کے لیے سعی کرنی چاہیے کہ عام انتخابات شفاف طریقے سے آئینی مدت کے اندر ہوں۔
ادھر، چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی عام انتخابات کے آئینی مدت کے اندر ہونے کا تقاضا کررہے ہیں۔ حیدر آباد میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اتحادی الیکشن سے بھاگ رہے ہیں تو انھیں بھاگنے دیں۔ جب آپ الیکشن سے بھاگتے ہیں تو کوئی اور آکر آپ کی جگہ لے لیتا ہے۔ اسی قسم کے تقاضے دیگر جماعتوں کے قائدین بھی کررہے ہیں اور ملکی حالات بھی اسی بات کے متقاضی ہیں کہ عام انتخابات جلد کرائے جائیں تاکہ ایسی حکومت وجود میں آسکے جس کا احتساب بھی ممکن ہو۔ نگران حکومت کے پاس صرف اختیارات ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ غیر منتخب ہونے کی وجہ سے اس کا احتساب بھی قریب قریب ناممکن ہوتا ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ تمام حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے جلد عام انتخابات کا اعلان کرے۔