افغانستان نے پاکستان کو آج تک دیا کیا ؟
اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ جیسے ہی پاکستان میں سکیورٹی ادارے پاکستانی علاقوں سے تسلسل کے ساتھ افغانستان میں جاری سمگلنگ کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہیں یا اس کی روک تھام کا فیصلہ کرتے ہیں، افغان سرحد سے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس شدت کے ساتھ فائرنگ کی جاتی ہے کہ جیسے جنگ برپا ہوگئی ہو۔ ان حملوں میںپاک فوج کی چوکیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ابتداءمیں افغان عبوری حکومت اس طرح کی کارروائیوں سے خود کو لاتعلق ظاہر کرتے ہوئے آئندہ کے لیے ایسے حملوں کی روک تھام کی یقین دہانیاں کراتی رہی لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے افغان حکومت نے لفاظی کا تکلف بھی ختم کر دیا ہے اور ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں کہ جیسے پاکستان کشیدگی چاہتا ہے۔ حالانکہ اس تاریخی حقیقت سے دنیا واقف ہے کہ بھارت افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کے علاوہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں ملوث رہا ہے اور آج بھی وہ پاکستان میں متحرک دہشت گردوں کی سرپرستی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اس فرق کے ساتھ کہ اب دہشت گرد امریکی افواج کے کابل میں چھوڑے ہوئے جدید ہتھیاروں کے ساتھ پاکستان میں سکیورٹی اداروں پر حملوں اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
افسوسناک مسئلہ افغان حکومت کا مایوس کن رویہ ہے جو پاکستان میں دہشت گردوں کے زیر استعمال جدید امریکی ہتھیاروں کے بارے میں آج تک جواب نہیں دے سکی کہ دنیا کے مہنگے ترین ہتھیار جن کی نمائش افغانستان میں افغان طالبان پر مشتمل فوج کھلے عام کررہی ہے دہشت گردوں کے پاس کیوں ہیں؟ ان ہتھیاروں کے حوالہ سے پاکستان کے احتجاج پر 8 ستمبر 2023 ءکو امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’امریکہ نے افغانستان میں کسی طرح کا ملٹری سازو سامان دہشت گردوں کے لیے نہیں چھوڑا۔ البتہ محدود تعداد میں کچھ اسلحہ اور ایئر کرافٹ ضرور کابل میں رہ گئے تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان جس اسلحہ اور جدید جنگی سازو سامان کی بات کررہا ہے وہ افغان فورسز کے لیے تھا۔‘ جان کربی کے مطابق یہ جنگی ساز و سامان افغان سکیورٹی فورسز نے چھوڑا ہے امریکہ نے نہیں۔ ویسے تو امریکی ٹیلی ویژن چینل 15 اگست 2021 ءکو افغان طالبان کے کابل پر قبضہ سے قبل 12 اگست کو خبر بریک کرچکے تھے کہ کس طرح رات کے اندھیرے میں بگرام ایئر بیس (کابل میں امریکی چھاﺅنی) کی بتیاں گل کرکے امریکی فوج رات کے اندھیرے میں وہاں سے چلی گئی اور جاتے ہوئے 7 ارب ڈالر مالیت کے ایسے جدید مہلک ہتھیار اور دوسرا جنگی سامان سیل بند لکڑی کے کریٹوں میں اس حالت میں چھوڑ کر گئی جنھیں کھولا ہی نہیں گیا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کے حوالے سے خبر دی گئی کہ امریکی فوج کی طرف سے چھوڑا گیا اسلحہ 6 لاکھ ہتھیاروں پر مشتمل تھا۔ ان میں بڑی تعداد میں ایم فور اور ایم سکسٹین رائفلیں، مشین گنیں، راکٹ لانچر گرنیڈ، رات کے اندھیرے میں دیکھنے والی ہزاروں دوربینیں، رات کے وقت 1000 گز تک مار کرنے والی ایسی رائفلیں جن پر نصب دور بینوں سے اندھےرے میں انسانی جسم کی حرارت کی وجہ سے انھیں بآسانی دیکھا اور نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔
ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر چند روز قبل 6ستمبر کے روز چترال کے ضلع کالاش میں افغان سرحد کے قریب پاک فوج کی دو چوکیوں پر افغانستان سے آئے دہشت گردوں کی طرف سے حملے اور استعمال کیے گئے اسلحہ پر غور کریں توصورتحال واضح ہوجاتی ہے کہ ان حملوں کو کابل کی حمایت حاصل تھی جس میں 6 ستمبر کی تاریخ کا انتخاب بتا رہا تھا کہ بھارت بھی اس کی پشت پر ہے۔ تاہم پاکستان کے سکیورٹی ادارے سرحد پار افغان صوبوں کنڑ اور نورستان میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر پہلے ہی نظر رکھے ہوئے تھے اور کابل میں افغان عبوری حکومت کو دہشت گردوں کے جدید ہتھیاروں کے ساتھ اجتماع سے متعلق آگاہ کرنے کے علاوہ پاک فوج کی چوکیوں کو چوکس کیا جاچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دہشت گرد حملہ آور ہوئے تو انھیں پاک فوج کی طرف سے بھر پور جواب ملا۔ اس حملے میں دہشت گردوں کے طرف سے استعمال کیے گئے اسلحہ کی بناپر پاکستان نے امریکہ سے احتجاج کیا تھا جس کے جواب میں جان کر بی نے افغان عبوری حکومت کو ذمہ قرار دے دیا۔
اب حالت یہ ہے کہ افغان سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف انتہائی تکلیف د ہ تبصرے جاری ہیں۔ پاکستانی کرنسی کا مذاق اڑیا جارہا ہے۔ پاکستان کو دھمکی آمیز پیغامات دیے جا رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ پاکستان نے ہر طرح کی سمگلنگ کو سختی سے روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب پاکستان میں معیشت کی بحالی کے لیے آرمی چیف کے حالیہ فیصلوں کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ سمگلنگ روکنے کے علاوہ افغان ٹریڈ معاہدوں کے تحت افغانستان سے سمگل ہوکر واپس پاکستان آنے والے اس غیر ملکی سامان کو بھی روکا جائے جو افغان تاجر کراچی کی بندرگاہ سے افغانستان منتقل کرنے کے بعد واپس پاکستان بھیج کر پاکستان کے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طورپر مقیم ان لاکھوں افغانیوں کو عزت واحترام کے ساتھ واپس افغانستان بھیجا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی مضبوط معیشت سے مستفید ہوسکیں۔
٭....٭....٭