بجلی مراعات سے چلنے والی اسلامی ریاست
اچھی اور مثبت خبروں کی تلاش پر لکھے گزشتہ ”ولایت نامہ“ پر متحدہ عرب امارات اور یورپی ممالک سمیت وطن عزیز سے مختلف سرکاری اور نیم سرکاری شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ بعض ”سفید پوشوں“ نے بجلی‘ گیس‘ مہنگائی معاشرتی بے انصافی اور کمزور جمہوری رویوں کو مزید بے نقاب کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اب ایک اور اضافی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ دیہاڑی دار‘ مجبور اور سفید پوشی کی چادر اوڑھے Hand to Mouth طبقے کو گیس اوربجلی مہیا کرنے والے با اختیار ”صاحبوں“ کو ملنے والی مراعات میں شامل مفت بجلی اور مفت گیس کا بھی مختصر جائزہ پیش کروں تاکہ انکی سلسلہ وار دیجسنے والی بددعاﺅں میں قدرے ٹھہراﺅ آسکے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے ہاں آجکل مسائل‘ ظلم اور بے انصافی کیخلاف جب غریب اور متاثرہ طبقے کی اٹھائی آواز کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی تو متاثرہ افراد صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ تجزیہ نگاروں اور سوشل میڈیا کے ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز تک رسائی حاصل کرنے کے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دور چونکہ سوشل میڈیا کا ہے‘ اس لئے شکایت کنندگان اور بے انصافی کا شکار افراد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ پرنٹ میڈیا میں لگی خبر سے قبل ہی وہ اپنی روئیداد بذریعہ یوٹیوب متعلقہ اعلیٰ حکام تک پہنچا سکیں تاکہ کم سے کم وقت میں انہیں بلاخوف و خطر انصاف مہیا ہو سکے۔ صحافیوں‘ کالم نگاروں اور سوشل میڈیا سے ایسی توقعات وابستہ کرنے والے ایسے سائلین کو آج شاید معلوم ہی نہیں کہ ریاست نے صحافی اور کالم نگار کی بھی اب ”قلمی حدود“ متعین کر دی ہیں جن سے تجاوز کرنا ممکن نہیں رہا۔ ایک وقت تھا جب ”اخباری رپورٹر کو ہر سرکاری اور نیم سرکاری محکمے کی in-out سچائی کو عوام تک پہنچانے کیلئے محکمے خطرہ کی علامت تصور کرتے تھے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب علاقے کا متعلقہ ڈی ایس پی کرائم رپورٹر کو خود فون کرکے تھانوں میں رجسٹرڈ کیسز کی تفصیلات سے آگاہ کیا کرتا تھا کہ ”رپورٹر“ کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے حوالے سے بھجوائی گئی خبر کی اشاعت کا فوری نوٹس لینا متعلقہ اعلیٰ حکام کیلئے ناگزیر ہو جاتا تھا مگر حالات آج یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔
غیرتربیت یافتہ رپورٹروں کو سیاسی لیڈروں کے پیچھے بھاگتے‘ ان سے سوالات کرتے اور مذکورہ لیڈروں کی جانب سے ان رپورٹروں کیلئے سوالوں کا قطعی نوٹس نہ لینے کے مناظر آج جب ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھتا ہوں تو ایسے ”سوکالڈ رپورٹروں“ کی اس دوڑ دھوپ پر ترس تو آتا ہی ہے، دل خون کے آنسو بھی رونے لگتا ہے۔ یہی وہ سوچ اور عمل ہے جو بونافائیڈ جرنلزم پر آج بری طرح اثرانداز ہو رہا ہے۔ ممکن ہے میرے بعض غیرتربیت یافتہ رپورٹر دوست مہنگائی کے اس دور میں میری اس سوچ سے اتفاق نہ کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ محض ”مورت“ اور ”روسٹڈ مرغی کی ٹانگ“ کے سواد سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو جرنلزم کے بنیادی قواعد و ضوابط سے مکمل آگہی حاصل کرتے ہوئے اس باوقار پیشہ کو دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں اردو زبان بولی‘ سمجھی اور لکھی جاتی ہے‘ مزید قابل احترام بنایا جائے۔
دکھ اور درد دل سے یہ بھی لکھنے پر مجبور ہوں کہ ہماری اردو صحافت کا حال بھی اب ملک کی بعض سیاسی جماعتوں میں پائی گئی ایسی دھڑے بندیوں سا ہے جہاں عوامی مسائل پر مفاداتی عمل کو ترجیح دی جارہی ہے۔ اب یہ سوال کہ مفاداتی عوامل کیا ہیں‘ ان پر پھر کبھی سہی۔ آج تو صرف مہنگائی اور بجلی کے بلوں سے متاثرہ افراد کی اضافی خواہش کا احترام کرنا ہے۔ مختلف سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں بطور دیہاڑی دار‘ محنت مزدوری کرنیوالے بعض سادہ لوح احباب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بڑے ”صاحبوں“ کو مراعات کے زمرے میں بجلی اور گیس جب مفت ملتی ہے تو انہیں بجلی گیس کی مفت سہولتیں کیوں دستیاب نہیں۔ سوال میں بلاشبہ دم ہے۔ مگر اپنے ان محنت کشوں کو یہ کیسے یقین دلایا جائے کہ مفت بجلی‘ مفت سفر‘ مفت گیس اور مفت ٹیلی فون ہر سرکاری محکمے سے ملنے والی مراعات کا حصہ ہیں جو گریڈ ایک سے 22 تک کا ہر اہلکار اور افسر حاصل کرنے کا مجاز ہے۔ یہ نظام بھی قوم کو انگریز کا ہی دیا ہوا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا اب ممکن نہیں۔
سرکاری دستاویز میں دیئے گئے اعداد و شمار میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ سرکاری محکموں کے گریڈ 17 سے 21 تک کے اعلیٰ افسران سالانہ ایک ارب 25 کروڑ روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین سالانہ 10 ارب روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ نیم سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں مفت اور چوری کی جانیوالی بجلی اور گیس کی ایک علیحدہ داستان ہے۔ ریلوے کوٹھیوں اور سپڈیز کمپنیوں میں وسیع پیمانے پر بجلی چوری کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن سے سالانہ 122 ارب روپے کا قومی نقصان ہو رہا ہے۔ دستاویزی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2022ء میں 500 ارب روپے کی بجلی چوری کی گئی۔ بجلی کے ان تمام امور کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ ہمارے ہاں بجلی کا کوئی ایسا مربوط نظام سرے سے قائم ہی نہیں ہو سکا جس سے کم تنخواہ دار طبقہ کو مالی سہولت فراہم کی جا سکتی۔ بجلی چوری یا خرچ کئے گئے یونٹس سے زائد بل بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ اس مسئلے کا آغاز ”میٹر ریڈر“ سے اور بدقسمتی سے اختتام ریونیو آفیسر کے گرد گھومتی پھرتی سائلین کی وہ فائلیں ہیں جو گزشتہ 70 برس سے اصل مقام پر نہیں پہنچ پائیں۔ یہ تمام تر رونا رونے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جو قومیں آئی ایم ایف کی گرفت میں ایک بار آجاتی ہیں‘ انکے معیشت‘ معاشی خوشحالی اور ملکی وقار پر کوئی بھی سمجھوتہ نہ کرنے کے تمام تر حقوق خودبخود سلب ہو جاتے ہیں جو زندہ اور خوددار قوموں کیلئے ایک بہت بڑا المیہ ہوتا ہے۔ اندازہ آپ اب خود لگالیں کہ نگران وزیر خزانہ نے بھاری بجلی بلوں پر عوام کے احتجاج اور ملک میں روزافزوں بڑھتی ہوشربا مہنگائی کو محسوس کرنے کے باوجود اگلے روز بغیر لگی لپٹی یہ وضاحت کی ہے کہ 76 سالہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو چلانے کیلئے 80 ارب ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور ڈیزل کیلئے دہائیاں دیتی قوم کو وہ یہ بھی آگاہ کر دیتیں کہ 90 روز میں ہونیوالے متوقع انتخابات سے قبل 80 ارب ڈالر کا حصول کیسے ممکن ہوگا۔