بروقت انتخابات کیلئے سیاسی قیادتوں کی بصیرت کا امتحان
اگرچہ نگران سیٹ اپ کی بنیادی ذمہ داری آئین کے تقاضوں کے مطابق انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت اور انتقال اقتدار کے مراحل طے کرانے کی ہے تاہم نگران حکومت جس طرح پورے اعتماد کے ساتھ ملک و مملکت کے پالیسی معاملات سے متعلق فیصلے کررہی ہے جن میں قومی اداروں کی نجکاری کے فیصلے بھی شامل ہیں‘ جبکہ وہ آئی ایم ایف کے بیل آﺅٹ پیکیج کے عبوری معاہدے کو اسکی تمام تر شرائط کے ساتھ پایہ¿ تکمیل کو پہنچانے کی بھی خود کو پابند سمجھتی ہے اور نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات کرانے کی بھی خود کو ذمہ دار ٹھہرا چکی ہے چنانچہ اس تناظر میں نگران حکومت تفویض ہونیوالے مقاصد کے حصول تک خود کو برقرار رکھنے کا ذہن بنائے بیٹھی نظر آتی ہے۔
اس صورتحال میں قومی سیاسی جماعتوں اور انکی قیادتوں کو بہت احتیاط‘ دانشمندی اور ثابت قدمی سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ حکمرانوں کو سوٹ نہ کرنے والے انکے کسی بھی اقدام کو طویل عرصے تک انتخابات مو¿خر کرنے کا جواز بنایا جا سکتا ہے جس کے بعد انہی سیاسی قیادتوں کو بحالی جمہوریت اور انتخابات کے حصول کیلئے کسی نئے مشترکہ پلیٹ فارم پر ماضی جیسی طویل جدوجہد کرنا پڑ سکتی ہے۔ اس تناظر میں کیا یہ بہتر نہیں کہ انتخابات کی تاریخ کے تنازعہ میں باہم سر پھٹول کرکے متعلقین کو انتخابات کے التواءکا بہانہ فراہم کرنے کے بجائے انتخابات کے انعقاد کی کسی ایک مدت اور تاریخ پر اتفاق کر لیا جائے۔ جب ایک دوسرے کی حلیف اور حریف سب جماعتوں کی جانب سے بیک آواز ہو کر انتخابات کے مخصوص مدت میں انعقاد کا تقاضا کیا جائیگا تو حکومت اور الیکشن کمیشن کیلئے انتخابات سے گریز عملاً ناممکن ہو جائیگا۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے اپنی پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد آئندہ ماہ 21 اکتوبر کو ملک واپس آنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے ایک تو ملک میں سیاسی انتخابی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہو جائیگا اور دوسرے عوام کو اس امر کا بھی یقین ہو جائیگا کہ نگران سیٹ اپ کے زیر اہتمام عام انتخابات 90 دن کی مقررہ آئینی مدت کے اندر منعقد نہیں ہو رہے جبکہ میاں نوازشریف کے ملک واپس آنے سے سیاسی جماعتوں کے مابین صحت مند سیاسی مقابلے کی فضا بھی استوار ہو جائیگی۔ ویسے بھی کوئی قومی سیاسی جماعت اپنے پارٹی قائد کی قیادت میں ہی سیاسی انتخابی سرگرمیاں آگے بڑھا سکتی ہے۔ اس تناظر میں مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کے آغاز کیلئے اسکے بانی قائد کا ملک میں موجود ہونا ضروری ہے۔ ملک واپسی کیلئے انکی راہ میں کسی قسم کی قانونی‘ آئینی رکاوٹیں حائل ہوں تو دادرسی کیلئے وہ عدلیہ کے مجاز فورم سے رجوع کر سکتے ہیں جیسے علاج معالجہ کیلئے عدالت کی اجازت سے انکی جیل سے بیرون ملک روانگی ممکن ہوئی تھی۔ بالخصوص جس قومی سیاسی قیادت کی جانب سے ملک کی بہترین خدمت کا کریڈٹ لیا جارہا ہو‘ اسے اپنی پارٹی کا سیاسی مستقبل بچانے کی بھی فکر لاحق ہونی چاہیے جو اس وقت فی الواقع داﺅ پر لگا ہوا ہے اور میاں شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے ماتحت اتحادیوں کی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں جستیں بھرنے والی مہنگائی کا سارا ملبہ مسلم لیگ (ن) پر ہی گر رہا ہے۔ اس پراپیگنڈہ مہم کا میاں نوازشریف ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں اور اپنی پارٹی کا دفاع کر سکتے ہیں۔ اگر انکی ملک میں عدم موجودگی کے دوران انتخابات کا پراسس شروع ہو گیا تو پھر انتخابات میں یقینی طور پر انکی پارٹی کے ہاتھ پلے کچھ نہیں آئیگا۔
اسکے برعکس پیپلزپارٹی کی قیادت نہ صرف اپنے حق میں نتائج نکالنے والی سیاسی حکمت عملی طے کر چکی ہے بلکہ پیپلزپارٹی کے صدر بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری اپنے اپنے انداز میں متحرک بھی ہو چکے ہیں جو بظاہر 90 دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کے معاملہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رائے کا اظہار کر رہے ہیں مگر فی الحقیقت انکی یہ سیاسی حکمت عملی پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو انتخابی عمل کے ساتھ جوڑے رکھنے کی ہے تاکہ انتخابات کی جو بھی تاریخ مقرر ہو‘ پیپلزپارٹی کو رابطہ عوام مہم کیلئے کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اپنی پارٹی کو مسلسل سرگرم رکھنے کیلئے ہی گزشتہ روز آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری لاہور میں قیام پذیر ہوئے جہاں پیپلزپارٹی کی انتخابی حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کیلئے پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں پیپلزپارٹی کے اندر انتخابات کے 90 دن کے اندر منعقد ہونے یا نہ ہونے پر کسی قسم کا تنازعہ پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں تاہم یہ تنازعہ پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے مابین ضرور سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اپنے پارٹی قائد میاں نوازشریف کی ملک میں عدم موجودگی کے باعث ہی 90 دن کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کیلئے تیار نظر نہیں آتی جس کا میاں شہبازشریف کے اس بیان سے بھی عندیہ ملتا ہے کہ نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کو یہ بھی خوف لاحق ہے کہ عمران خان کو حتمی طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا نااہل کرائے بغیر اور پی ٹی آئی کیلئے میدان کھلا چھوڑ کر انتخابات کرائے گئے تو اس کیلئے انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنا عملاً ناممکن ہو جائیگا۔ یہی خوف مولانا فضل الرحمان اور سابقہ حکومتی اتحادی دوسری جماعتوں کو بھی لاحق ہے اس لئے انکی پوری کوشش مطلوبہ نتائج کا یقین ہونے تک انتخابات کے انعقاد کی نوبت نہ آنے دینے کی ہی ہوگی۔
اس فضا میں سیاسی جماعتوں کے مابین ایسی کشیدگی پیدا ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا جو بالآخر انتخابات کے غیرمعینہ مدت کیلئے التواءکا موقع فراہم کرنے پر منتج ہوگی۔ سیاسی محاذآرائی کی اس فضا میں پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے باہم متحد ہو کر آئینی مدت کے اندر انتخابات کا تقاضا کرنے کا قوی امکان بھی موجود ہے چنانچہ ملک میں اس سیاسی اودھم کی فضا پھر استوار ہو سکتی ہے جو ماضی قریب میں سسٹم کی بقاءو استحکام کیلئے سنگین خطرات پیدا کرتی رہی ہے۔
قومی سیاسی قیادتوں کا اصل مقصد تو نگران سیٹ اپ کو طوالت اختیار نہ کرنے دینے اور انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کا ہونا چاہیے۔ یہ مقصد سیاسی قیادتوں کی اجتماعی بصیرت اور باہم اختلافات سے گریز کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر بحالی جمہوریت کی مشترکہ جدوجہد کیلئے ان کا راستہ انتہائی کٹھن ہوگا۔