انتخاب سے پہلے احتساب اور نظام کی تبدیلی
سیاستدان اگر ملک سے مخلص ہوتے تو سب سے پہلے تو پارلیمنٹ سے کرپشن پر سزائے موت کا قانون منظور ہوتا۔ ملک کے قدرتی آبی وسائل سے مکمل استفادہ کرکے سستی ترین بجلی اور وافر زرعی پانی کے لئے ملک بھر میں تمام ممکنہ چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جاتے اور اگر قومی خزانے میں چھوٹے بڑے ڈیموں کے بنانے کےلئے رقم نہ ہوتی تو وقت ضائع کئے بغیر B.O.T.کی بنیاد پر عالمی معاہدوں کے ذریعے یہ کام ہر صورت کیا جاتا۔ اختیارات و وسائل کی یونین کونسل سطح تک تقسیم کرکے ہر صورت بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے اور عوام کے مسائل انکی دہلیز پر حل کئے جاتے۔ بڑے قومی اداروں میں میرٹ اور شفافیت کو ترجیح دیکر انہیں منافع بخش اور قوم کا بہترین سرمایہ بنادیا جاتا۔ کرپشن کی حوصلہ شکنی کی جاتی اور سیاست سے دولت کا عنصر ختم کردیا جاتا۔ انصاف کی گھر کی دہلیز تک فراہمی کو اولین ترجیح رکھ کر تمام ضروری قانونی کارروائی اور وسائل کی فراہمی ممکن بنائی جاتی۔ زراعت کی ترقی کےلئے اقدامات کئے جاتے اور کسانوں کی خوشحالی کے مشن سے ملک کی خوشحالی کو یقینی بنایا جاتا۔ لاقانونیت کے خاتمے کیلئے میرٹ پر اہل لوگوں کو اعلٰی عہدے دیئے جاتے۔ ملک کو قرض سے نجات دلانے کیلئے حکومتی شاہ خرچیاں تمام ممکن حد تک کم کی جاتیں۔ بجلی کی پیداوار کیلئے ہائیڈل پاور جنریشن کے منصوبے بنائے جاتے۔
بدقسمتی کہ سیاستدانوں نے ڈیموکریسی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر اسے پاکستان کیلئے ڈاکوکریسی بنادیا اور کرپشن کی بیخ کنی کے بجائے کرپشن کو فروغ ملا۔ ملک میں کوئی ڈیم نہیں بنائے گئے کیونکہ ان میں ذاتی کمیشن ملنے کے امکانات نہیں تھے اسی لئے بھاری کمیشن کی وصولی کیلئے مہنگی بجلی پیدا کرنےوالے پروجیکٹ لگائے گئے۔ ملک کے قدرتی آبی وسائل ضائع کرکے وافر پانی کو عوام کیلئے عذاب بنادیا گیا ہے۔اگر ڈیموں کی تعمیر پر سندھ کو اعتراض تھا تو سب سے پہلے سندھ کی سال بھر کی ضرورت کا پانی سندھ میں ہی ذخیرہ کرنے کیلئے 3چھوٹے ڈیم بن جاتے اور سندھ کی تمام چھوٹی بڑی نہروں کو پختہ کردیا جاتا تو بڑے ڈیموں کی تعمیر پر سندھ کا اعتراض ختم ہوجاتا۔ سالانہ 30ملین ایکڑ فٹ میٹھا پانی سمندر برد کرکے ضائع کیا جارہا ہے۔تھرکول کے بارے میں سنا ہے کہ اس وقت کام بند ہے کیونکہ حکومت نے تھرکول کے اربوں روپے دینے ہیں جس کی وجہ سے کام بند ہوا ہے اور صنعت کار بیرون ملک سے کوئلہ درآمد کر رہے ہیں۔حالانکہ کہا جاتا ہے کہ تھر میں اس قدر کوئلہ ہے کہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے بچانے میں اس سے مددلی جاسکتی ہے لیکن غیر سنجیدگی کے باعث اہم منصوبے غیر فعال ہیں۔ بلدیاتی نظام کو کمزور کرکے برائے نام انتخابات کرائے گئے اور اختیارات و وسائل اعلٰی سطح پر منجمد کئے گئے جس سے عوام کے مسائل میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ تمام بڑے قومی ادارے ضرورت سے زیادہ اور نااہل افراد کو سیاسی بنیادوں پربھرتی کرکے ان اداروں کو ملک کیلئے معاشی بوجھ میں تبدیل کردیا گیا۔ ایسا نظام نہیں لایا گیا کہ سیاست سے دولت کے عنصر کا خاتمہ کرکے تھانے اور پٹوار خانے کو سیاستدانوں کے چنگل سے آزاد کرایا جاتا۔ الیکشن میں اہل نوجوانوں کو سیاست کے مواقع میسر آتے۔ عام آدمی کو گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کےلئے ہنگامی بنیادوں پر نئے انتظامی صوبے بناکر یونین کونسل سطح پر لوگوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاتی اور اس کیلئے ضرورت مطابق ججوں کی تقرری کی جاتی۔قانون سازی کرکے دیوانی مقدمات ہر صورت ایک سال اور فوجداری چھ ماہ میں ختم کرنے کا پابند بنایا جاتا اور ہائیکورٹس و سپریم کورٹ بھی اپیلوں پر چھ ماہ میں فیصلے کرنے کے پابند بنائی جاتی۔ کسانوں کو شوگر مل مافیا‘ فلور مل مافیا‘ رائس مل مافیا سمیت مڈل مین کے چنگل میں پھنسا دیا گیا۔سیاسی پشت پناہی میں جرائم پیشہ عناصر کی پرورش کی گئی جس سے ملک بھر میں لاقانونیت میں زبردست اضافہ ہوااور عوام کی جان و مال محفوظ نہیں۔ جمہوریت کے نام پر نااہل اور کرپٹ ترین عناصر کو ملک پر قابض کرنے کے ذمہ دار بھی سیاستدان ہی ہیں اور قومی وسائل کو بے دریغ طریقے سے خرچ کیا گیا۔
ملک میں موجودہ حالات پہلی بار نہیں آئے بلکہ جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اس وقت بھی ملک کو ڈیفالٹر اور دہشت گردقرار دیئے جانے کی خبریں تسلسل سے آرہی تھیں۔ جنرل مشرف نے حکومت سنبھالنے کے ایک سال میں مارک اپ کی شرح 4%کردی اور بینک کے افسران ہر کاروباری فرد کے دفتر جاکر قرض کی سہولت کی فراہمی کی پیشکش کرتے تھے۔ بڑے قومی ادارے اربوں روپے کے خسارے سے نکل کر اربوں روپے تک بچت میں چلے گئے۔ انہوں نے میرٹ پر پولیس و انتظامی افسران لگاکر ملک بھر میں مثالی امن قائم کیا۔ زراعت کی ترقی کیلئے کسانوں کو فریٹ ریٹ پر بجلی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کھاد‘ بجلی اور زرعی ادویات آسان ترین شرائط پر فراہم کی گئیں۔ جنرل مشرف نے کسان کانفرنس میں کسانوں کے تمام مطالبات مان لئے اور گندم‘ گنا و کپاس کے ریٹ کسان کے مطالبے کے مطابق مقرر کئے جس سے ملک پہلی بار خوراک میں خودکفیل ہوگیا۔جنرل مشرف نے ملک کو بہترین بلدیاتی نظام دیا جس کے تحت ملک بھر میں ریکارڈ توڑ ترقیاتی کام ہوئے اور کراچی کے ناظم کو ایشیاءکے بہترین ناظم کا ایوارڈ ملا۔ جنرل مشرف کے دور میں بجلی و گیس کی کوئی لوڈشیڈنگ نہیں تھی۔ ڈالر اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ایک سطح پر منجمد رہیں۔ جنرل مشرف نے چھوٹے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے واٹرویڑن کا اعلان کیا اور ملک بھر میں عوامی رابطہ مہم چلائی۔ عالمی مالیاتی اداروں کو قبل ازوقت ادائیگی کرکے ملک کو قرض سے نجات دلائی۔
2008ءسے 15سالہ ڈیموکریسی کے نتائج عوام کے سامنے ہیں اور یہ بات طے ہوچکی ہے کہ موجودہ گلا سڑا نظام ملک کے مسائل میں اضافے کا سبب ہے اور موجودہ نظام سے کسی بھی صورت ملک کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ احتساب کا اب تک کا نظام لوٹ مار کی دولت واپس لینے میں ناکام رہا ہے۔ موجودہ نظام کے تحت فوری انتخابات سے ملک میں بہتری کی امید پاگل پن کے مترادف ہے۔ عوام بجلی بلوں‘ مہنگائی و بے روگاری سے پریشان ہیں اور فوری ریلیف کیلئے ان کی نظریں آرمی چیف کی جانب ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ پہلے کڑا احتساب کریں اور لوٹ مار کرنے والوں کو منوڑہ جیسے جزیرے میں بند کرکے سرعام چوکوں پر لٹکایا جائے۔ قومی دولت لوٹنے والوں سے ایک ایک پائی وصول کی جائے اور معیشت کی بہتری تک انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں۔ انتخابی نظام تبدیل کرکے متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کرائے جائیں تاکہ سیاست سے دولت کے عنصر کا خاتمہ ہوسکے اور ملک بھر میں کوئی ووٹ ضائع ہوئے بغیر اصل مقبولیت کی شرح سے پارٹیوں کو نشستیں ملیں۔