نگران وزیراعظم ون نیشن ون لاءکیلئے پر عزم
ندیم بسرا
سابق حکومت کی جانب سے اہل بیت و صحابہ کرام کے متعلق پاس ہونے والے بل کی باز گشت پورے ملک میں جاری ہے۔مختلف مکاتب فکر کے علماءکرام اس پر مختلف آراءرکھتے ہیں اور اس پر تحفظات بھی برقرار ہیں۔اب اس قانون کے بعد علماءکرام پر مقدمات بھی درج ہورہے ہیں جس کے بعد ان کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان میں مختلف مکاتب کے علماءپر پرچے درج ہوئے جس کے بعد گلگت بلتستان میں حالات کافی کشیدہ بھی ہوئے۔پاکستان میں سیاحتی مقامات کے حوالے سے خیبرپختونخوا ،گلگت بلتستان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شاہراہِ قراقرم بھی اسی علاقے سے گزرتی ہے اور اس طویل ترین روٹ شاہراہِ قراقرم پر کیونکہ یہاں پاکستان اور ہمارے ہمسایہ ملک چین کا تجارتی راہداری بھی موجود ہےاس لئے اس علاقے کے مذہبی حالات خراب ہونا پاکستان کے ہر گز مفاد میں نہیں۔پاکستان کا آئین سبھی شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے جس کی رو سے کسی کے مذہبی حقوق کو دبایا نہیں جاسکتا اس لیے گلگت بلتستان میں امن ہونا پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے۔اب اس مذہبی بل پر تو بحث نہیں کی جا سکتی ،یہ علماءکرام کا منصب ہے پھر بھی ملکی امن و سلامتی کی بات کرنا عام شہری کا بھی برابر حق ہے۔ اس سلسلے میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی گلگت بلتستان گئے جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر باتیں کیں،انہوں نے کہ قانون کی عملداری سے مسائل کو حل کریں گے۔ ون نیشن ون لاءہی رہے گا،کسی کو غلط فہمی ہے تو دور کرلے۔ پاکستان میں پاکستانی انٹیلی جنس کے ذریعے چیزوں کا تجزیہ کریں گے، ملک میں کسی بھی غیرملکی ادارے کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، ہمت اور حکمت کے ساتھ غلط فہمیوں کاخاتمہ کریں گے، گلگت بلتستان کے مسائل آئینی طریقے سے حل کریں گے۔کسی بھی گروہ کو کسی کو یرغمال بنانے نہیں دیں گے، لوگوں کے آئین میں درج حقوق کے لیے جو کاوش ضروری ہوگی حکومت کرے گی۔ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام ضروری ہے، حقوق کے نفاذکی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ غلط فہمیوں کی بنیاد پر دوریوں کا خاتمہ ضروری ہے، جہاں انسان ایک دوسرے کے حقوق کو تصور نہیں کرتا ایسا جنگل کے نظام میں ہوتا ہے۔نگراں وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی وی پر گلگت بلتستان کے مسائل سے متعلق ٹاک شو ہوناچاہئیے۔ ایساپلیٹ فارم ہوناچاہیے جس پرگلگت بلتستان کے مسائل اجاگرہوں، قانون کی عملداری سے مسائل کو حل کریں گے۔
دوسری جانب نواز شریف کی ملک واپسی کی تاریخیں اتنی بتائی جاچکی ہیں کہ اب مذاق سا بن کر رہ گیا ہے اب اکیس اکتوبر کی تاریخ بتائی جارہی ہے یہ کب بدل دی جائے اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ نواز شریف کے معالجین کو اندیشہ ہے کہ میاں صاحب کے لیے پاکستان کی فضا وقتی طور پر ٹھیک نہیں وہ پاکستان آکر بیمار ہوسکتے ہیں اگر ایسا ہوا تو ان کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوگا اس لیے تاریخ پے تاریخ دیے جانے کا امکان نظر انداز نہیںکیا جاسکتا۔شاہ محمود قریشی اپنی گرفتاریوں اور مسلسل مقدمات میں الجھائے رکھے جانے پر اتنے دکھی ہوئے ہیں کہ انہوں نے تنگ آکر کہہ ہی دیا ہے کہ ملک سے غداری کی ہے تو بھانسی پرلٹکا دیا جائے۔صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ملک سے غداری کا سوچ بھی نہیں سکتا کبھی ملک کے مفاد کے خلاف نہیں گیا بار بار وضاحت کی ہے اگر پھر بھی نہیں یقین تو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔
اب ایک اور سیاست دان شہ سرخیوں میں ہے وہ ہے بلاول بھٹو زرداری جو مسلسل اپنی کریز سے باہر نکل کر شارٹس لگا رہے ہیں کبھی وہ آصف علی زرداری کے سیاسی بیانات کی الٹ سمت میں جاتے ہوئے ملک میں بروقت انتخابات کی باتوں کو دہراتے ہیں اور کبھی کہتے ہیںکہ اگر صحیح جگہ پر صحیح آدمی کو تعینات کیا جائے تو عوامی ادارے کارکردگی دکھا سکتے ہیں ۔ان کا یہ کہنا کہ عوام نے پیپلز پارٹی کو موقع دیا تو اداروں کو مضبوط کرکے عوام کو سہولیات دیں گے،وسائل صحیح طرح خرچ ہوں تو اچھے ادارے بن سکتے ہیں یقیناً کسی بات کی چغلی کھا رہا ہے۔اب وہ کس موقع کی تلاش میں ہیں جس کے لیے وہ سب باتیں کررہے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔