کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جاگ جائیں یا گھر جائیں
حافظ محمد عمران
ایشیاءکپ کا ایک اہم میچ جِسے سیمی فائنل کا درجہ حاصل تھا پاکستان ٹیم نے غلطیوں کا اتوار بازار سجا کر وطن واپسی کا سامان کیا ہے۔ ایسی غلطیاں کہ جو واضح طور پر نظر آتی ہیں اور جنہیں دہرایا جا رہا ہے اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی لیکن اس کے باوجود ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے بابے اور اہم میچز میں مسلسل ناکام ہونے کے باوجود ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کا شکار پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی نجانے کس دُنیا میں رہ رہے ہیں کہ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی شکست سے کروڑوں دل ٹوٹتے ہیں، بجلیاں گرتی ہیں ،اُداسیاں چھا جاتی ہیں اور دکھوں ماری عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ سری لنکا کے خلاف سُپرفور کے آخری میچ میں پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے ایک مرتبہ پھر روایتی انداز میں عقل سے عاری کپتانی کی۔ کسی نے اگر میچ ہارنے کا طریقہ سیکھنا ہے تو وہ پاکستان اور سری لنکا کے مابین اس میچ کو دیکھیں اور اگر ناکام کپتانی کے گُر سیکھنے ہیں تو اُسے بھی اس میچ کو بار بار دیکھنا چاہیے ایک ایسی ٹیم جس کا کوچنگ سٹاف غیر ملکی گوروں پر مشتمل ہے اُن سب نام نہاد باصلاحیت افراد میں سے کوئی بھی پچ پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ کرکٹ بورڈ لاکھوں کروڑوں روپے ایسے لوگوں پر لٹا رہا ہے جنہیں کرکٹ میچ کی سب سے اہم چیز پچ سے ہی کوئی واقفیت نہیں ہے جہاں پہلے بیٹنگ کرنی ہوتی ہے وہاں باﺅلنگ کرتے ہیں اور جہاں بیٹنگ کرنا ہوتی ہے وہاں باﺅلنگ کرتے ہیں۔ جمعرات کو کھیلے گئے میچ میں کولمبو کے پریما داسا سٹیڈیم میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے جس غیر معیاری کھیل کا مظاہرہ کیا ہے اُس سے بہت سے سوالات پیدا ہوئے ہیں اور شکوک و شبہات کو بھی جنم دیا ہے۔ پاکستان کی ٹیم کے بلے باز سپنرز کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ، فاسٹ باﺅلرز کا گیند ہلتا ہے تو کھیلا نہیں جاتا ، باﺅنسر ہوتا ہے تو وہاں بھی ناکام ہوتے ہیں ، ان حالات میں اِن دنوں قومی ٹیم کے ساتھ کام کرنے والے کوچز اور گزشتہ دو تین برس میں پاکستان ٹیم کے کوچنگ سٹاف میں شامل رہنے والے افراد سے سوال ضرور ہونا چاہیے کہ انہوں نے کھلاڑیوں کی بنیادی خامیاں دور کروانے کے لیے کتنا کام کیا، انہوں نے کام کیا یا نہیں کیا ، کھلاڑیوں نے کوچز کے ساتھ تعاون کیا یا نہیں کیا، حقیقت سامنے آنی چاہیے۔ سری لنکا کے خلاف میچ میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کے بیٹنگ آرڈر میں ایسی تبدیلیاں ہوئی جنہیں دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ ون ڈے کرکٹ کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی تیار کرنے کی بجائے ٹی ٹوینٹی کرکٹ کی سوچ کے مطابق فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ افتخار احمد سب سے بہتر اور سب سے زیادہ تجربہ رکھنے والے بلے باز ہیں لیکن اُن سے پہلے محمد حارث اور محمد نواز کو بیٹنگ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ ایک ایسا میچ جہاں افتخار احمد ، محمد نواز اور شاداب خان سے اچھی باﺅلنگ کرتے ہیں انہیں شاداب اور نواز کے بعد گیند بازی کا موقع ملتا ہے۔ افتخار احمد کے 8 اوورز میں تین وکٹیں ہیں اور شاداب خان کی 9 اوورز میں صرف ایک وکٹ ہے لیکن کپتان کا اعتماد شاداب خان پر زیادہ ہے۔ حالانکہ اس پورے ایشیاءکپ میں سب سے زیادہ خراب باﺅلنگ شاداب خان نے کی ہے نہ کوئی لائن لینتھ ہے نہ گیند ٹرن ہو رہا ہے نہ اُن کی باﺅلنگ میں کوئی جان ہے لیکن وہ کپتان کے میچ ونر ہیں۔
بھارت کے خلاف پالے کیلے میں فاسٹ باﺅلرز نے ابتداءمیں وکٹیں حاصل کیں۔ ایک ایسا وقت جب انڈیا کی ٹیم دباﺅ میں تھی کپتان نے فاسٹ باﺅلرز کو بہتر استعمال کی بجائے سپنرز پر انحصار کیا اور بھارت کو میچ میں واپس آنے کا موقع دیا۔ کولمبو میں بھی پاکستان نے وکٹیں حاصل کیں لیکن کپتان بابر اعظم نے سری لنکن بلے بازوں کو اُن حالات میں جب وہ سپنرز کو اچھا کھیل رہے تھے فاسٹ باﺅلرز سے باﺅلنگ نہیں کروائی۔ زمان خان جو کہ اپنا پہلا ایک روزہ انٹرنیشنل میچ کھیل رہے تھے انہوں نے سب سے اچھی باﺅلنگ کا مظاہرہ کیا لیکن شاید کپتان انہیں پسند نہیں کرتے اور انہیں صرف 6 اوورز کروانے کا ہی موقع ملا۔ حالانکہ کہ وہ مختلف سطح کی کرکٹ میں متعدد بار یہ ثابت کر چکے ہیں کہ مشکل حالات میں وہ اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے بہتر گیند بازی کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن پاکستان ٹیم کے کپتان نے انہیں صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کی بجائے آرام کروانے کو ترجیح دی۔ ایک ایسی پچ جہاں سپنرز کے لیے اچھی خاصی مدد موجود ہو ہمارے سپنرز بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ سری لنکن کپتان شناکا اس اہم میچ میں ہر وقت جارحانہ حکمت عملی کے ذریعے غیر معمولی فیصلے کرتے رہے جبکہ پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے سلپ لینے سے بھی گریز کیا۔
پاکستان ٹیم اس ایشیا کپ میں منصوبہ بندی ، حکمت عملی، کھیل کے شعور، آگاہی اور بروقت فیصلوں کے اعتبار سے مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ سکواڈ منتخب کرنے والے اور حتمی ٹیم کا فیصلہ کرنے والے تمام افراد کی صلاحیتیں مشکوک ہو چکی ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ان حالات میں بے بس نظر آتے ہیں۔ انتظامی اعتبار سے پاکستان کو سخت اور دلیرانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ٹیم میں بعض کھلاڑیوں کے حوالے سے کپتان کی غیر ضروری حمایت کارکردگی اور نتائج پر اثرانداز ہوتی ہے۔ چند روز بعد عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کا آغاز ہو رہا ہے ، ہماری تیاریاں بُری طرح بے نقاب ہو چکی ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین اگر فیصلے نہیں کر سکتے تو انہیں گھر چلے جانا چاہیے۔ کوئی بھی کھلاڑی کھیل سے بڑا نہیں ہے۔ اگر یہی حال رہا تو عالمی کپ میں بھی اچھے نتائج کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ کھلاڑی انفرادی طور پر باصلاحیت ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن انتظامی طور پر کھلاڑیوں کا استعمال اور اُن کے کردار اور حدود کا تعین نہیں کیا جاتا تو صلاحیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جاگ جائیں یا گھر جائیں۔