نئے چیف جسٹس آف پاکستان اور عدلیہ کی نئی ترجیحات
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ملک کے 29 ویں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیاہے اور یہ حلف ان سے اس شخصیت نے لیا ہے جس نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بجھوایا تھا۔ ایوانِ صدر میں ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت سابق چیف جسٹس صاحبان، ججوں، وکلاءاور صحافیوں نے شرکت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 5 ستمبر 2014ءکو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے۔ 2019ءمیں صدارتی ریفرنس کے بعد سینئر ترین جج ہونے کے باوجود انھیں تین سال سے کسی آئینی مقدمے کے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔ انھوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع کے بعد اپریل سے معمول کے بینچوں میں بیٹھنے سے معذرت بھی کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان بننے کے ساتھ ہی جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ بھی بن گئے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتیاں ہوتی ہیں جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف شکایات سننے کا فورم ہے۔
نئے چیف جسٹس کے آتے ہی سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو بھی ہوئی ہے اور اب جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر بالترتیب ان دونوں سپریم باڈیز کے ارکان بن گئے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس آف پاکستان اور 2 سینئر ترین جج شامل ہوتے ہیں جبکہ جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس آف پاکستان اور عدالت عظمیٰ کے 4 سینئر ترین ججوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں کچھ نئی تقرریاں بھی ہوئی ہیں جن میں سے ایک اہم تقرری رجسٹرار سپریم کورٹ کی ہے۔ سیشن جج اوکاڑہ جزیلہ اسلم کو سپریم کورٹ کی پہلی خاتون رجسٹرار تعینات کر دیا گیا ہے۔ جزیلہ اسلم کو 3 سال کے لیے ڈیپوٹیشن پر رجسٹرار سپریم کورٹ تعینات کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، ڈاکٹر مشتاق احمد کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے جبکہ بلوچستان سے عبدالصادق چیف جسٹس کے چیف آف سٹاف تعینات ہو گئے ہیں۔
سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے صدر شہبازشریف نے چیف جسٹس آف پاکستان کی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب عدل کے ایوانوں میں عدل کی روایات کا ڈنکا بجے گا۔ سابق وزیراعظم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عدل آئین، قانون اور ضابطوں کی پاسداری سے ہی ممکن ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے مزید کہا کہ عوام عدل و انصاف کی فراہمی کے منتظر ہیں۔ شہبازشریف نے کہا امید ہے کہ دنیا میں پاکستان کی عدلیہ کی ساکھ اور نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔ دعا ہے کہ نئے چیف جسٹس اپنی ذمہ داریوں میں سرخرو ہوں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تقرر ہوتے ہی کچھ نئی روایات کی بنیاد رکھی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عدلیہ کی ترجیحات میں تبدیلی آرہی ہے اور یہ تبدیلی ایسی ہے جس سے عوام کا اس ادارے پر اعتماد بڑھے گا۔ ایک تو نئے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ءسے متعلق سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دی ہے، اور دوسرا، انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ کورٹ کی کارروائی سرکاری ٹیلی ویژن چینل یعنی پی ٹی وی کے ذریعے براہِ راست نشر کی جائے گی۔ اسی کیس کے حوالے سے فل کورٹ کی تشکیل نہ کرنے پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنی سبکدوشی کے قریب کے زمانے میں ذرائع ابلاغ میں ہونے والی بحثوں کا خصوصی موضوع بنے۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے اس وقت موجودہ پندرہ ججوں پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے کر ایک بار پھر خود کو ایک ایسی شخصیت شکے طور پر پیش کیا ہے جو ادارے اور اس کے وقار کو اپنی ذات اور انا سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
جس ایکٹ سے متعلق سماعت کے لیے سپریم کورٹ کی فل کورٹ تشکیل دی گئی ہے، جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے8رکنی لارجربینچ نے رواں برس اپریل میں اسی ایکٹ پرحکم امتناعی جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے عدالت کے معاملات میں دو ایسی تبدیلیاں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جن کے بارے میں جسٹس عمر عطا بندیال کا خیال یہ تھا کہ یہ تبدیلیاں ان کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے کی جارہی ہیں؛ ان تبدیلیوں کے ذریعے بینچ کی تشکیل اور سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار چیف جسٹس کی بجائے تین سینئر ججوں کو دیا گیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے مختلف حلقوں کی جانب سے ہونے والے مسلسل تقاضوں کے باوجود اس ایکٹ پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل نہیں دی تھی۔
سپریم کورٹ میں گزارے گئے گزشتہ نو برس کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود کو ایک اصول پرست شخصیت کے طور پر منوا چکے ہیں۔ ان کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس کے معاملے میں بھی انھوں نے خود کو مضبوط اعصاب کی حامل شخصیت ثابت کیا۔ اب بطور چیف جسٹس آف پاکستان ان پر بہت بھاری ذمہ داری آگئی ہے تاہم انھوں نے حلف لینے کے بعد پہلے ہی دن جس روایت کی بنیاد رکھی ہے اس سے واضح ہورہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی عزت اور وقار کو ہر حال میں اپنی ذات پر ترجیح دیں گے اور ادارے کو ایک سمت میں لے کر جائیں گے جہاں عوام کا اس ادارے پر اعتماد بڑھے گا۔ یہ ایک بہت ہی مثبت اور خوش آئند پیش رفت ہے۔ قبل ازیں، سپریم کورٹ جس طرح مختلف متنازع معاملات کے حوالے سے موضوعِ بحث بنی رہی ہے اس سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا تاہم اب یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس آف پاکستان اپنے ادارے کی ساکھ کو بحال کریں گے۔