• news

چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا حلف اور کِھلتے مرجھاتے تاثرات

سپریم کورٹ کے 29ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جس انداز میں قاضی القضاة کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور انصاف کی عملداری کے کام کا آغاز کیا‘ اس پر ہمارے کرپشن کلچر اور اقرباءپروری میں لتھڑے معاشرے کے کئی طبقات حیران اور کئی پریشان ہیں۔ انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ سرینا فائز کو ڈائس پر اپنے ساتھ کھڑا کرکے صدر عارف علوی سے اپنے منصب کا حلف لیا تو سوشل میڈیا پر دن بھر اور رات گئے تک رونق لگی رہی۔ انہیں منصفِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوتا نہ دیکھنا چاہنے والوں کو تو گویا ان کا یہ اقدام انکے کسی کمزور پہلو کو اجاگر کرتا نظر آیا چنانچہ انہوں نے سوشل میڈیا پر جسٹس فائز کیلئے سنگ باری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ انہیں سب سے زیادہ عجیب یہ بات یہ لگی کہ جسٹس فائز حلف اٹھاتے وقت اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑا کرکے آخر کیا پیغام دینا چاہتے تھے جبکہ آج تک حلف برداری کی کسی بھی تقریب میں حلف اٹھانے والی کسی شخصیت نے اپنی اہلیہ یا خاندان کے کسی فرد کو اپنے ساتھ کھڑا نہیں کیا۔ پھر انہوں نے یہ نئی روایت کیوں قائم کی؟۔ اس اعتراض کے جواب میں سوشل میڈیا پر ہی ایک تصویر گردش کرتی رہی جو امریکی صدر باراک اوبامہ کے حلف اٹھانے کے وقت کی تھی جس میں باراک اوبامہ نے حلف اٹھاتے وقت اپنی اہلیہ اور بیٹی کو بھی اپنے ساتھ کھڑا کیا ہوا تھا۔ اسکی روشنی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئی نئی روایت تو قائم نہیں کی جبکہ کسی قانون میں اسکی ممانعت بھی نہیں۔ 
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جو تبصرے زیادہ پھیلے ان میں سے ایک میں یہ کہتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کے اس اقدام کو سراہا گیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف دائر ریفرنس میں روزانہ کی پیشی کی صورت میں سب سے زیادہ اذیت بیگم سرینا فائز کو ہی اٹھانا پڑی تھی جنہیں اپنی وراثتی جائیداد پر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور جسٹس فائز کے برادر ججوں کی طرف سے ہی انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ اس لئے آج جسٹس فائز عیسیٰ نے انہیں ساتھ کھڑا کرکے اپنی وجہ سے اپنی اہلیہ کو پہنچنے والی اذیت کا ازالہ کیا ہے۔ مجھے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ہونیوالے جس تبصرے نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ فاضل چیف جسٹس کی جانب سے بطور منصفِ اعلیٰ عملی جامہ پہنائے جانے کا متقاضی تبصرہ ہے کہ فاضل چیف جسٹس نے حلف برداری کے وقت اپنی اہلیہ کو اپنے پاس کھڑا کرکے انہیں اور دوسرے متعلقین کو درحقیقت یہ پیغام دیا ہے کہ میں جو حلف اٹھا رہا ہوں‘ وہ آپ بھی اپنے کانوں سے سن لیں کیونکہ اس حلف کی بنیاد پر میں نے صرف آئین اور انصاف کی عملداری کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے جس کیلئے میری بیوی‘ ساس‘ یا خاندان کا کوئی دوسرا رکن مجھ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ عدالتی فیصلے اور احکام کسی جج کی اہلیہ اور ساس کی منشاءکے تابع نہیں ہو سکتے۔ 
اللہ کرے کہ فاضل چیف جسٹس کی جانب سے یہی پیغام دیا گیا ہو جبکہ حلف برداری کی اس تقریب کے ذریعے ایک چشم کشا پیغام ان سے حلف لینے والے صدر مملکت عارف علوی کو بھی ملا جنہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کے ایماءپر جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوایا تھا چنانچہ ان سے حلف لیتے وقت انہیں اس احساس نے کچوکا تو لگایا ہوگا کہ ”وتو عزو من تشا‘ وتو ذلو من تشا“۔ مگر جناب انہیں کوئی ایسا احساس کچوکے لگاتا محسوس ہوتا تو وہ ایوان صدر کو عمران خان کے تابع فرمان ٹائیگر کی حیثیت سے استعمال کرنے کے بجائے غیرجانبدار صدر کے تقاضے نبھا کر عزت اور نیک نامی کماتے۔
تبھی تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کارواں ہو کر 
مجھے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انصاف کی عملداری کے حوالے سے اپنے جن اقدامات پر زیادہ متاثر کیا‘ ان میں سے ایک تو عدالت کی کاز لسٹوں اور فریقین کیلئے مقدمات میں پیشی کی خاطر نوٹسوں کو انگریزی کے بجائے قومی زبان اردو میں جاری کرنا ہے جو درحقیقت اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے سے متعلق سپریم کورٹ ہی کے ایک فیصلہ پر عملدرآمد کا آغاز ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی متعلقہ بنچ کے رکن کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کا حصہ تھے۔ اگر وہ بطور چیف جسٹس اپنے زیرسماعت پہلے کیس کی کارروائی بھی اردو زبان میں کرتے تو اس سے قومی زبان کے رائج ہونے میں ٹھوس معاونت ملتی۔ ممکن ہے آگے چل کر یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے۔ ان کا دوسرا اقدام سپریم کورٹ میں زیر سماعت پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کیلئے اپنی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ تشکیل دینے کا ہے جس کیلئے چیف جسٹس عمر عطاءبندیال کے وقت پارلیمنٹ، سیاسی قیادتوں، نمائندہ وکلاءتنظیموں اور آئینی و قانونی ماہرین سمیت عملاً پوری قوم بیک زبان تھی مگر جسٹس بندیال نے بوجوہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنایا ہوا تھا۔ اب فل کورٹ کے روبرو اس کیس کی سماعت کا آغاز ہو چکا ہے اور فاضل چیف جسٹس کے تیسرے مثبت اور خوشگوار اقدام کے تحت پوری قوم پی ٹی وی کے ذریعے براہ راست اس کیس کی کارروائی میں شریک ہے۔ اس لئے عدل گستری سے متعلق یہ مقولہ عملی قالب میں ڈھل گیا ہے کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے‘ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ ”اوپن کورٹ“ کا یہی تو تقاضا ہوتا ہے جو آج تک بروئے کار نہیں لایا گیا تھا اور بعض اوقات تو کیس کی حساسیت کے نام پر بعض مقدمات کی بند کمرے میں (اِن کیمرہ) سماعت بھی ہوتی رہی۔ اب پوری قوم خود یہ مشاہدہ کریگی کہ کس کا کیا کیس ہے اور اس میں کس کی کیا منشاءہے۔ اس طریق کار سے یقیناً انصاف کی عملداری پر عوام کا اعتماد قائم اور مضبوط ہوگا اور اسے گدلانے والے چہرے بے نقاب ہونگے۔ 
ریٹائر ہونیوالے چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے جاتے جاتے نیب ترمیمی ایکٹ پر کلہاڑا چلا کر پارلیمنٹ اور عدلیہ پر مشتمل ریاستی اداروں میں جس فساد کی بنیاد رکھی‘ اب پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے فیصلہ سے اس کا بھی نتارا ہو جائیگا۔ اس کیس میں بھی فل کورٹ کے روبرو یہی نکتہ زیرغور ہے کہ پارلیمنٹ کے وضع کردہ کسی قانون یا آئینی شق کو عدالت کالعدم قرار دے سکتی ہے یا نہیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں سبکدوش ہونیوالی پارلیمنٹ نے ترمیم کی تو چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے اپنی سربراہی میں آٹھ رکنی بنچ تشکیل دیکر پارلیمنٹ کے منظور کردہ اس قانون کو تاحکم ثانی معطل کر دیا اور بدستور اپنے صوابدیدی اختیارات بروئے کار لاتے رہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت عدالت عظمیٰ کے متعدد برادر ججوں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا مگر جسٹس بندیال اپنے برادر ججوں کی رائے کو بھی خاطر میں نہ لائے اور اپنی من مانیاں جاری رکھیں جو بادی النظر میں کسی مخصوص ایجنڈے کا حصہ تھیں۔ اب فل کورٹ کی اجتماعی دانش کے تحت پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کے حوالے سے اصل پوزیشن کی بہتر انداز میں وضاحت ہو جائیگی۔ اگر اس کیس میں پارلیمنٹ کے آئین و قانون سازی کے اختیار پر کوئی عدالتی قدغن نہ لگانے کا فیصلہ ہوا تو پھر پارلیمنٹ کے منظور کردہ نیب ترمیمی ایکٹ کی 9 شقوں کو کالعدم کرنے کا جسٹس بندیال کا فیصلہ بھی بے وقعت ہو جائیگا۔ چنانچہ آج پوری قوم کی نگاہیں اسی تناظر میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ کی جانب مرکوز ہیں۔ اب یقیناً اس تاثر کی بھی نفی ہو جائیگی کہ فلاں چیف جسٹس ہوں تو فلاں پارٹی کو فائدہ پہنچائیں گے اور فلاں چیف جسٹس آجائیں تو فلاں پارٹی اپنے مقاصد میں سرخرو ہو جائیگی۔ انصاف سب کیلئے بے لاگ، بے رحم اور یکساں ہے اور انصاف وہی ہے جس کا آئین اور قانون متقاضی ہو۔ یہ تقاضا فاضل ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ پر من و عن عمل کرکے ہی پورا ہو سکتا ہے۔ فاضل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے یہی بڑا امتحان ہے۔ وہ اس امتحان میں سرخرو ہونگے تو عدلیہ کی جانب کسی کو انگلی اٹھانے کی بھی جرا¿ت نہیں ہو پائے گی۔ وماعلینا الالبلاغ

ای پیپر-دی نیشن