• news

مجید نظامی کی یاد تڑپارہی ہے !

جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والے مرشد مجید نظامی آج مجھے شدت سے یاد آرہے ہیں ۔ انھوں نے جنرل ضیاءالحق کے منہ پر کہا تھا کہ میرے دماغ میں جمہوریت کا کیڑا کلبلا رہا ہے ۔انھوں نے نواز شریف سے کہا تھا کہ تم دھماکہ نہیں کروگے ،تو قوم تمھارا دھماکہ کردے گی۔ انھوں نے جنرل مشرف سے کہا تھا کہ اگرتم نے کشمیر کی جنگ آزادی کو دہشت گردی قرار دیا تو تم اپنی کرسی پر زیادہ دیر براجمان نہیں رہ سکو گے۔ آج میں اس قدر جرا¿ت مند اور دلیر مرشد مجید نظامی ؒ کو یاد کررہا ہوں۔ملک آج پھر سیاسی انتشار کا شکار ہے ۔ عوام معاشی سونامی کے چنگل میں ہیں۔دہشت گردی کا ناگ پھنکار رہا ہے ۔ ایسے میں مجھے مرشد مجید نظامیؒ کیوں نہ یاد آئیں۔ میں ہرر وز ایک نئی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہوں، میں سرگرداں ہوں، حیران و پریشان ہوں، سراسیمہ ہوں۔ ایک لمحے کے لیے سوچتا ہوں تو میں انھیں شہید کہتا ہوں، شہید مانتا ہوں، اور میرا ایمان ہے کہ شہید زندہ ہیں مگر ہم اس زندگی کا ادراک نہیں رکھتے ۔دوسرا لمحہ ایسا آتا ہے کہ میں چکرا کر رہ جاتا ہوں، میں چشم تصور میں ان کے گھر کی اسٹڈی کو خالی پاتا ہوں، میں ان کے عام نشست کے بر آمدے میں انھیں دیکھنے سے قاصر رہتا ہوں اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ آج میں اگر ان کے گھر عید ملنے جاﺅں تو وہ اپنے ڈرائنگ روم میں تشریف فرمانہیں ہو ں گے جہاں وہ ہر عید کے روز ہوتے ہیں،اب ہر عیدپریہ تاریخی ڈرائنگ روم سوناپڑا ہو گا۔
مگر پھر ایک اورکیفیت میرے قلب و ذہن کا احاطہ کر لیتی ہے۔وہ پہلا دن تھا جب میں ان کے گھر میں داخل نہیں ہو سکا ورنہ ہمیشہ اس گھر کے دروازے پر مجھے دیکھتے ہی عبدالستار مجھے اندر لے جاتا رہا ہے مگر آج یہاں عالم ہی دوسرا ہے، میں جس گھر کا قریب قریب گیارہ بارہ برس تک ایک فرد رہاہوں، یکا یک یہاں اجنبی ٹھہرا۔میں پچھلے برس ایک طویل عرصے کے بعد سر شام اس گھر میں گیا تھا، اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہوتا رہا، انھوںنے دوبارہ پہلے جیسی محبت اور شفقت کے ساتھ مجھے اپنی ا ٓغوش میں لے لیا تھا۔ وہ ایک گھنے چھتنار درخت کی مانند تھے جو تاریخ کی راہ پر چلنے والے قافلوں کو اپنی خنک چھاﺅں کی رحمتوں میں لپیٹ لیتا ہے۔ میں اپنی نصف صدی کے طویل صحافتی کیریئر کے اس مرحلے پر بھر پورا ٓزادی کو انجوائے کرنا چاہتا تھا، میں برسوں بھٹکتا پھرا مگر آخر کاراس ٹھنڈے اور میٹھے سرچشمے کے کنارے آن لگا ، میں اس چشمے سے پوری طرح فیض یاب ہونا چا ہتا تھا۔مجھے ایک چھاتا چاہیے تھا، ایک مضبوط سہا را چاہیے تھا،اور مجھے وہ کلہ مل گیا جس کے بل بوتے پر میں اپنے ضمیر کے مطابق اظہار کر سکتا تھا۔
میں نے اس کلے کے سہارے بہت مستی دکھائی، میںنے ان کی حق گوئی کی روش کو اپنایا، میںنے سچ بولنا شروع کیا اور بولتا چلا گیا، میں جانتا تھا کہ وہ صاف گوئی کو پسند کرتے ہیں ، انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی، میں ان کی حدود وقیود کو سمجھتا تھا۔اس لیے مجھے کبھی کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ میرا راستہ اب بھی یہی ہے کہ یہ ان کا راستہ ہے جو میرے مربی ا ور مہربان تھے۔انھوں نے میرے راستوں کو اجالا تھا، میںان راستوں سے کیسے بھٹک سکتا ہوں۔میں ان راستوں کوکیسے ترک کر سکتا ہوں۔ میں ہی نہیں،نوائے و قت میں لکھنے ولا کوئی بھی ساتھی ان کی آئیڈیالوجی کو کیسے چھوڑ سکتا ہے۔یہ آئیڈیالوجی تو ہمارے ایمان کا حصہ بن چکی۔یہی ہمارا بدن ہے، یہی ہماری غذا ہے، یہی ہمارا لباس ہے، یہی ہماری روح ہے، یہی ہماری حیات ہے۔ یہ نظریہ حمید نظامی نے دیا اور جناب مجید نظامی نے اس کو پروان چڑھایا۔یہ نظریہ پاکستان ہے۔ ہمیں بھی اسی کی آبیاری کرنی ہے، ہر لمحے کرنی ہے، ہر سانس کے ساتھ کرنی ہے، ہر چیلنج کے سامنے کرنی ہے۔ میںاپنی بات دہراتاہوں کہ نوائے وقت کے بانی اول حمید نظامی فوجی آمریت کے ہاتھوں شہید ہوئے اور نوائے وقت کے بانی ثانی اور حقیقی معنوںمیں اس کے معمار، مجیدنظامی سول آمریت کے ہاتھوں شہادت سے ہمکنار ہوئے۔
 ان کی تقلید میںمیرے قلم کے ہونٹوں پر بھی ایک ہی نعرہ ہے کہ میں پھر جلایا جاﺅں ، میں پھر شہید ہوں، میں پھر جلایا جاﺅں ، میںپھر شہید ہوں، پھر شہید ہوں، پھر شہید ہوں، ہم شہادتوں کی کہکشائیں سجا دیں گے مگرحق و صداقت کی آواز بلند کرنے سے باز نہیں رہیں گے۔ تو جبرآزما، ہم جگر آزمائیں۔ بزدل اپنی موت سے پہلے بار بارمرتا ہے، اور بہادر صرف ایک بار ۔پیدائش کا لمحہ ہی در اصل موت کی طرف پہلا قدم ہے۔ کہتے ہیں کہ زندگی محض ایک خواب کا نام ہے، موت اس خواب کی خوشنماتعبیر ہے۔کوئی موت کو ایک حقیقی مہم جوئی خیال کرتا ہے۔ زندگی نے موت سے سوال کیا کہ لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور تم سے نفرت ؟ موت کا جواب تھا کہ لوگ تمھاری خوبصورتی پر فریفتہ ہیں مگر میں ایک درد ناک اور تلخ حقیقت، اس لیے مجھ سے خائف رہتے ہیں۔کسی نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میںموت کے بعد بھی زندہ رہنا چاہتا ہوں مگر ہر کوئی اس ہنر سے آشنا نہیں۔سیانے کہتے ہیںموت سے نہ ڈرو، اس زندگی سے ڈرو جو تم گزار نہیں رہے، تم نے ہمیشہ زندہ نہیں رہنا، زندگی گزارنے کا موقع صرف ایک بار ملتا ہے۔
میں ایک عالم سرمستی میں یہ سطور لکھے جا رہا ہوں، مجھے معلوم ہے رمضان المبارک کا انتیسواں دن اس سال کی طرح ہر سال تمام ہوتارہے گا ، اور روزے دار مغربی افق پر نئے چاند کو طلوع ہوتے دیکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے مگر میںکس چاند کو تلاش کروں کہ میرا چاند تو غروب ہو گیا۔ ہے کوئی مجھے پرسہ دینے والا؟ میں بھی غم کی شدت سے نڈھا ل ہوں۔ کوئی ہے جو میرے بہادر سپہ سالار کی موت پر مجھے پرسہ دینے آئے۔ میں اپنے غم گساروں کا انتظار کروں گا۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر-دی نیشن