منگل‘ 2 ربیع الاول 1445ھ ‘ 19 ستمبر 2023ئ
شیخ رشید کو بھتیجے اور ملازم سمیت پکڑ لیا گیا
بالآخر شیخ رشید کو بھی پکڑ ہی لیا گیا۔ اب دیکھتے ہیں ان کے ساتھ خصوصی سلوک ہوتا ہے یا رعایت برتی جاتی ہے۔ وہ بھی بہت اچھل کود کرتے رہے ہیں۔کفن پھاڑ کر بولنے کی کوشش کا انجام زیادہ اچھا نہیں ہوتا۔ اب ان کی گرفتاری کی خبر گرما گرم موضوع ہے۔ جس زمانے میں یہ انٹرنیٹ اور موبائل کی بیماری نہیں تھی۔ ٹی وی چینلز کی بھرمار نہیں تھی۔ اس زمانے میں جیسے ہی کوئی ایسی خبر آتی تو صبح سویرے ہاکر فلاں کو دھر لیا گیا۔ فلاں شخض پولیس کے ہتھے چڑھ گیا کی صدائیں لگاتے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اخبار خریدیں۔ اگر خبر فوری اور قومی نوعیت کی ہو تو ضمیمہ بھی شائع ہوتا تھا۔ اب شیخ رشید کی گرفتاری کوئی اتنی بڑی خبر تو نہیں کہ ضمیمہ چھپے۔ مگر دلچسپ ضرور ہے کیونکہ وہ سوشل میڈیا پر دھاڑتے ہوئے خود کو شیرنیستاں بنائے پھرتے تھے۔ اب ہرن بن کر پنجرے میں پڑے ملیں گے۔ کہاں وہ زمانہ کہ یہ خود کو مرحوم پیر پگاڑہ کی طرح جی ایچ کیو کا بندہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اور اس پر اعلانیہ فخر بھی کرتے تھے۔ اسکے باوجود سوائے راولپنڈی کے انہیں کسی دوسرے علاقے سے الیکشن لڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ یہ پہلے میاں نواز شریف پھر اٹک والے خان کے کاندھوں پر چڑھ کر صرف بولنے اور قد آور بننے کی کوشش کرتے رہے یا بدکلامی ان کی خاص وجہ شہرت بنی۔ کاش وہ کبھی سنجیدہ سیاست دان بنتے تو کم ازکم پیر پگاڑہ کی طرح جی ایچ کیو کا بندہ ہونے کی وجہ سے ہی ان کی دھاک جمی رہتی۔ خوش گفتار بذلہ سنج تو مرحوم پگاڑہ جی بھی تھے۔ مگر وہ کبھی پھلکڑ پن نہیں اترتے۔ خاندانی ہونے کے باعث اخلاقیات اور احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اب معلوم نہیں شیخ جی اپنے پرانے پیر خانے یعنی گیٹ نمبر 5 سے دوبارہ بیعت کرتے ہیں یا نئے مرشد کے ساتھ ہی وفاداری نبھاتے ہیں۔
٭٭........٭٭
حنیف عباسی نے بھٹو کے بارے میں اپنے بیان پر معذرت کر لی
ابھی کل ہی کی بات ہے حنیف عباسی پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ بھٹو مر چکا ہے حالانکہ پی پی والے ابھی تک ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ کے نعرے لگا کر بھٹو کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ البتہ سوچنے کی بات ہے کہ سندھ میں چارسو پھیلے بھوک‘ ننگ‘ بیماری اور غربت کے باوجود یہ ننگے پاﺅں پھٹے کپڑے پہنے ہاری‘ مزدور اور کسان جئے بھٹو‘ جئے بینظیر کے نعرے لگاتے ہوئے پہلے تلوار پر اب تیر پر مہر لگاتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ قوم پرستی ہے یا وفا داری بشرط استواری یا دھونس دھاندلی کا معاملہ ہے۔ بہرحال وجہ جو کچھ بھی ہو‘ پیپلزپارٹی والے ابھی تک بھٹو کو بطور ہتھیار استعمال کرکے دشمنوں کے مورچوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ باقی سب اس لشکر میں پورس کے ہاتھی ہیں۔ اب گزشتہ چند دنوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان ”چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد“ والا معاملہ چل رہا ہے۔ بلاول ذرا زیادہ ہی پچھلی حکومت کے پوتڑے سرعام دھونے پر تلے نظر آرہے ہیں حالانکہ وہ خود بھی اس کا اہم حصہ تھے۔ اس کے جواب مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے جب بھٹو کی موت کا اعلان کیا تو سب بھڑک اٹھے حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے یا پارٹی رہنماﺅں کے دباﺅ کی وجہ سے حنیف عباسی نے اپنے بیان سے رجوع کر لیا ہے اور نیا بیان جاری کیا ہے کہ بھٹو عظیم لیڈر تھے۔ اس طرح امید ہے اب بھٹو کے چاہنے والے ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور بات بڑھنے سے رک جائے گی مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ شیشے میں اگر بال آجائے تو پھر وہ لاکھ کوشش کے باوجود نہیں جاتا‘ تاہم یہ ضرور ہوگا کہ اب دونوں طرف سے فائربندی ہوگی اور دیکھنا ہے کہ یہ فائربندی کب تک جاری رہتی ہے۔
٭٭........٭٭
لاہور کی ماڈل سڑکوں پر ہیلمٹ کے بغیر موٹرسائیکلوں کا داخلہ بند
یہ بہت اچھا فیصلہ ہے مگر بہتر تھا یہ حکم سارے لاہور کی ماڈل اور عام سڑکوں پر بھی نافذ ہوتا تو مزہ آجاتا۔ لاہور میں موٹرسائیکل سوار ہوں یا چنگ چی والے‘ بس ہو یا ویگن‘ ڈرائیور یا پھر کار والے کوئی بھی کسی ٹریفک قوانین پر عمل کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے لاہور کی سڑکوں پر ہر وقت افراتفری مچی نظر آتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی ایمرجنسی ہو گئی ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کا دھواں‘ انجن کا شور اور ہارنوں کی کان پھاڑ دینے والے شور نے شہریوں کا جینا محال کر دیا ہے۔ اب ان تمام حالات کو درست کرنا یکدم تو ممکن نہیں‘ ہاں اگر آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے معاملات درست کرنے کی کوشش کی جائے تو حالات سدھر سکتے ہیں۔ اب جس طرح بڑی ماڈل سڑکوں پر ہیلمٹ کے بغیر موٹرسائیکلوں کی آمدورفت بند کر دی گئی ہے‘ اس سے بھی کم از کم لوگوں میں ہیلمٹ کی اہمیت کے حوالے سے شعور پیدا ہوگا اورلوگ جان لیوا حادثات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ورنہ ہمارے موٹرسائیکل سوار خاص طورپر نوجوان وہ بھی زیادہ تر بگڑے بچے جو طوفان بدتمیزی برپا کئے نظر آتے ہیں‘ انہیں نہ وارڈن کا خوف ہوتا ہے نہ قانون کا نہ ٹریفک اشاروں کی پابندی کا شوق۔ ان کو قابوکرنا ہوگا۔ ٹریفک وارڈن سے جب سے جرمانے کا روزانہ کوٹا واپس لیا گیا ہے‘ وہ بھی قدرے نکمے سے ہرمعاملے سے لاتعلق نظرآنے لگے ہیں۔ انہیں سختی سے ون وے کی خلاف ورزی اور ہیلمٹ کی پابندی پر عملدرآمد کا حکم دیکر سڑکوں پر صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ یہ جو عدالت نے بروقت موقع پر ہی 2 ہزار جرمانے کا فیصلہ دیا ہے‘ وہ بھی افراتفری کی حالت بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ پابندیاں سب پر ہونی چاہئیں۔ کوئی ادارہ اس پابندی سے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہئے۔ چاہے وردی والا ہو یا بغیر وردی کے کالے کوٹ والا ہو یا سفید کوٹ والا۔
٭٭........٭٭
موسم بدلنے سے گرمی کی شدت میں کمی‘ خزاں کی آمد
جی ہاں ساون بھادوں کا حبس آلود بھیگتا موسم رخصت ہوا۔ مون سون کے جاتے ہی موسم نے نئی انگڑائی لی ہے۔ ہوا میں نمی کا تناسب کم ہوتے ہی حبس اور گھٹن کی کیفیت ختم ہو گئی ہے۔ یوں گرمی سے ستائے لوگوں کی جان میں جان آئی ہے۔ اب چند ایک ماہ بعد ہی جاڑوں (خزاں) کی آمد ہوگی اور بقول شاعر
موسم بدلا رت گدرائی‘ اہل جنوں بے باک ہوئے
فصل بہاراں کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
دماغ ٹھنڈے اور پرسکون ہوں تو ان میں طرح طرح خیالات آتے ہیں۔ اچھے بھی اور ب±رے بھی۔ موسمی شدت میں کمی سے انسانی زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے اور اس کی خوشی و غمی کے احساسات زیادہ ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ندرت خیال کی وجہ سے اچھوتے موضوعات سامنے آتے ہیں اور
دل عشاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
کے مصداق چائے خانے آباد ہوتے ہیں‘ ہائے کیسا زمانہ تھا جب ان نرم گرم گلابی موسموں میں پاک ٹی ہاﺅس کی رونقیں بھی عروج پر ہوتی تھیں۔
اب تو لے دے کر صرف پارک ہی آباد ہوتے ہیں جہاں لوگ سیروتفریح کیلئے آتے جاتے ہیں۔ مئے خانوں کا چلن کب کا ختم ہو چکا۔اب نہ کہیں مئے کا تذکرہ ملتا ہے نہ مئے خانوں کا۔ صرف صاحب حیثیت ہی اپنے نجی عشرت کدوں میں اس زہرعناب بنت انگور سنہری رنگت والے گلابی فتنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز اٹلی کے ایک شہر میں شراب بنانے والاکارخانہ تباہ ہوا۔ 20 ہزار لٹر شراب سڑکوں پر بہہ نکلی۔ کثرت مئے سے چہروں پر پھیلی سرخی کی طرح شہر کی سڑکیں اور گلیاں سرخ ہو گئیں۔ اس پر ہماری اشرافیہ کو دکھ تھا کہ کاش وہ اس شہر بے مثال میں ہوتے اور اس مفت کی نعمت سے فائدہ اٹھاتے۔ خیر یہ تو ویسے ہی جملہ معترضہ تھا‘ اصل میں جاڑوں کی شام کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ جہاں خزاں قدم جماتی ہے‘پتے گرتے ہیں‘ سبزہ خاکستری رنگ اختیار کرتا ہے‘ درخت خالی ہونے لگتے ہیں‘ ان علاقوں کے رہنے والے زیادہ اس موسم کی تبدیلی سے متاثر ہوتے ہیں۔