بھارت کی پھیلتی ہوئی دہشت گردی!!!!!!
جون کے مہینے میں خالصتان تحریک کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ہردیپ سنگھ کے قتل کے خلاف سکھوں نے دنیا بھر میں مظاہرے کیے۔ کینیڈا میں ہونے والے اس قتل میں اب ایک نیا موڑ آیا ہے جو کہ مہذب دنیا کے لیے کچھ نیا ہو سکتا ہے لیکن پاکستان تو روز اول سے ہی بھارت کی ایسی تخریب کاری اور دہشت گردی کا نشانہ بنتا آیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا اس معاملے میں حقائق کو سامنے رکھنے کے بجائے مالی مفادات کو اہمیت دیتے ہوئے بھارت کو رعایت دیتی ہے اور اصل مسائل سے آنکھیں چرائے رکھتی ہے لیکن ہردیپ سنگھ کے قتل کی سفاک کارروائی نے نریندرا مودی اور اس کے دہشت گرد، متعصب اور ہندوتوا کو فروغ دینے والے ساتھیوں پر سنجیدہ نوعیت کے رویے پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ ہردیپ سنگھ قتل کیس کی وجہ سے بھارت اور کینیڈا کے مابین سفارتی تعلقات بھی کشیدہ ہو رہے ہیں۔ کینیڈا نے اس قتل میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جب کہ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے مطابق کینیڈین انٹیلی جنس نے ہردیپ کی موت اور بھارتی حکومت کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی ہے۔ اب بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی اور ان کے پیارے امریکی صدر جو بائیڈن اس کی ذمہ داری بھی پاکستان پر ڈالنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ کیونکہ جسٹن ٹروڈو نے تو واضح کر دیا ہے کہ اس قتل کے پیچھے کون ہے۔ بھارت ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا رہتا ہے، سرحد پار دہشت گردی کے جھوٹے الزامات عائد کرتا ہے۔ دنیا کے سامنے غلط بیانی کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر ممالک مالی مفادات کی وجہ سے اس کا ساتھ دیتے ہیں لیکن ہردیپ سنگھ قتل کیس نے ثابت کیا ہے کہ بھارت خود دہشت گرد ملک ہے ۔ بھارت کی موجودہ حکومت کی پالیسی ہی تشدد پر مبنی ہے۔ ہر وہ کام جس کا الزام بھارتی حکومت دوسروں پر عائد کرتی یے وہی کام عین اسی وقت وہ خود کر رہے ہوتے ہیں۔ کینیڈین وزیراعظم کا بیان انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر ہے۔ اتنی اعلی سطح پر ایسے معاملات میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں ہوتا اس لیے کینیڈین وزیراعظم نے جو بات کی ہے وہ سمجھ بوجھ کر اس کے بعد پیدا ہونے ممکنہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کی ہے۔ یہ ایسا بیان نہیں کہ نظر انداز کر دیا جائے یہ کہا جائے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ایسا ہونا مشکل ہے۔ہردیپ سنگھ قتل کیس کی تفتیش اور انٹیلی جنس رپورٹس سامنے آنے کے بعد کینیڈا نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے بھارت کے سفارتکار کو بھی ملک بدر کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ کینیڈا میں بھارتی انٹیلی جنس کے سربراہ پون کمار رائے کو بھی ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ کینیڈا کی طرف سے ایسے انتہائی اقدام کے بعد بھارتی حکومت نے بھی جواب میں کینیڈا کے سفیر کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے گذشتہ روز کینیڈین ہائی کمشنر کو طلب کر کے انہیں بھارت میں کینیڈا کے سفارتکار کی ملک بدری کے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔اٹھارہ جون کو ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی واردات کے بعد کینیڈا میں سکھ برادری نے اسے سیاسی قتل قرار دیا تھا اور اس دوران ہردیپ سنگھ کے قتل کا الزام بھارتی حکومت پر لگایا جاتا رہا ہے۔ ہردیپ سنگھ نجر انیس سو ستانوے میں کینیڈا منتقل ہو گئے تھے۔ کینیڈا میں سکھ برادری انہیں اپنے رہنما کے طور پر دیکھتی تھی۔ وہ آزاد خالصتان اور اس حوالے سے ریفرنڈم میں پیش پیش رہتے تھے۔ بھارتی حکومت سکھوں کو دبا کر رکھنے کی حکمت عملی پر کام کرتی ہے اور دنیا بھر میں سکھ بھارتی حکومت کے فیصلوں اور الگ وطن کے قیام کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ واضح رہے کہ کینیڈین حکام کو ایسی کسی بھی کارروائی کے حوالے معلومات مل رہی تھیں اور انہوں نے ہردیپ سنگھ نجر کو خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت ایک طرف تو اپنے شہریوں کی آزادی کا دشمن بنا ہوا ہے وہ سکھوں کو ان کے حقوق دینے سے انکاری ہے۔ دوسری طرف پاکستان پر جھوٹے الزامات عائد کرتا ہے جب کہ یہ سارے کام کرتے ہوئے مبینہ طور پر وہ کینیڈین شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں ہے۔ ابھی تو صرف کینیڈا میں یہ واقعہ ہوا ہے انگلینڈ، آسٹریلیا، امریکہ سمیت دیگر ممالک کو بھی تیار رہنا چاہیے کیونکہ متعصب ہندوو¿ں کے مظالم سے تنگ سکھ تو دنیا بھر میں اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں اور ریفرنڈم کروا رہے ہیں تو کیا بھارت ان تمام ممالک میں سکھوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اختیار کرے گا۔ امریکا اور برطانیہ نے بھی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان کے مطابق سکھ رہنما کے قتل سے متعلق کینیڈین وزیراعظم کے الزامات پر تشویش ہے اب اہم یہ ہے کہ کینیڈا کی تفتیش آگے بڑھے۔ برطانوی حکومت کے ترجمان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت پر سنگین الزامات پر کینیڈا کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں معاملے پر کینیڈین حکام کی تحقیقات جاری ہیں لہٰذا مزید تبصرہ نامناسب ہو گا۔درحقیقت یہ کارروائی دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ نریندرا مودی کی متعصب سوچ اور ہندوتوا کے فروغ کی پالیسی کی وجہ سے صرف خطے ہی دنیا کے امن کو بھی خطرہ ہے اور اگر عالمی طاقتوں اور اداروں نے بھارتی جارحیت کا توڑ نہ کیا تو سب کو شدید نقصان کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ چند روز ہی گذرے ہیں نیویارک ٹائمز میں بھی بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کی پالیسیوں پر ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں یہی بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ نریندرا مودی سب کے لیے خطرہ بنے گا ۔ اٹھارہ جون کو کینیڈا میں ہونے والے اس قتل کی واردات کے بعد بھی اگر عالمی طاقتوں نے آنکھیں نہ کھولیں تو پھر سب کو اپنے اپنے حصے کے نقصان کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یاد رکھیں پاکستان کا نقصان سب سے کم ہو گا۔ جتنے بڑے ممالک ہیں انہیں نقصان بھی زیادہ ہونا ہے۔
آخر میں قتیل شفائی کا کلام
پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاو¿
سکوتِ مرگ طاری ہے، ستارو تم تو سو جاو¿
ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاو¿ خلاو¿ں میں
ہمیں پہ رات بھاری ہے، ستارو تم تو سو جاو¿
ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو جاو¿
تمہیں کیا؟ آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
یہ بازی ہم نے ہاری ہے، ستارو تم تو سو جاو¿
کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
یہ کیسی راز داری ہے، ستارو تم تو سو جاو¿
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے، ستارو تم تو سو جاو¿