چیف جسٹس دیگر اداروں کے افسران کے لیے ایک مثال ہیں
سوموار کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی فل کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون ایکٹ 2023ءسے متعلق کیس کی سماعت کی جسے سرکاری ٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر کیا گیا۔ اس کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ کی تشکیل نے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے وقار میں بھی اضافہ کیا ہے کیونکہ ماضی قریب میں قوم کو یہ تاثر ملا کہ شاید سپریم کورٹ میں کسی خاص نقطہ نظر کے حامل افراد گرفت میں ہیں، لہٰذا عدالت سے وابستہ فاضل ججوں کے مابین اس نوعیت کے اختلافات موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ فل کورٹ کی شکل میں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ نئے چیف جسٹس نے اپنی حلف برداری کے اگلے ہی روز فل کورٹ تشکیل دے کر ایک اچھا آغاز کیا اور اس سماعت کو براہِ راست نشر کر کے ایک اچھی روایت کی بنیاد بھی رکھی۔
فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے دائر کی گئی تمام درخواستیں منظور کر لی گئیں اور عدالت نے بینچز بنانے سے متعلق حکم امتناعی ختم کر دیا۔ مقدمے کی مزید سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسے اختیارات نہیں چاہئیں جو چیف جسٹس کو احتساب سے بالاتر بنائیں۔ میرے لیے سب سے اہم آئین اور قانون ہے۔ اپنے لیے ایسا اختیار نہیں چاہتا جس سے ملک کو نقصان ہو۔ عدالتی کارروائی سے قبل چیف جسٹس کی زیر صدارت فل کورٹ میٹنگ ہوئی جس میں 4 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں زیر التوا مقدمات، ترجیحی بنیادوں پر سماعت والے کیسز، عدالتی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ اور کیسز کی سماعتوں کو موثر بنانے کے لیے گائیڈ لائنز کا جائزہ لیا گیا۔ فل کورٹ اجلاس میں ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق سماعت کو براہِ راست نشر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
وفاقی حکومت نے اس مقدمے سے متعلق تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا جس میں حکومت نے موقف اپنایا کہ پارلیمنٹ کے قانون کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، استدعا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کی جائیں۔ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت اپنے رولز بنا سکتی ہے مگر آئین کی یہ دفع پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔ یہ کیس کئی حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ایک تو اس سے اداروں کے درمیان اختیارات کے توازن کا فیصلہ ہوگا، اور دوسرا، اس سے یہ بھی طے ہو جائے گا کہ سپریم کورٹ اپنے اختیارات کو کس طرح استعمال کرسکتی ہے۔ ان نکات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اس کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینا ایک نہایت دانشمندانہ فیصلہ ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کو مخاطب کر کے کہا کہ قانون کو غیر آئینی کہنا آسان ہے، بتا دیں کون سا سیکشن کس آئینی شق سے متصادم ہے، بہت سے قانون مجھے بھی ذاتی طور پر پسند نہیں ہوں گے، جب میری ذاتی رائے کی حیثیت نہیں تو آپ کی بھی نہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں ریکوڈیک کے معاملے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا، ریکوڈک کیس میں ملک کو6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں تو نہیں لوں گا، ایسے اختیارات نہیں چاہتا جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو، یا مفاد عامہ کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے کو پروان چڑھایا جائے۔ از خود نوٹس کے اختیارات چھوڑنے کے لیے تیار ہوں، اندرونی آزادی کے ساتھ ساتھ احتساب اور شفافیت بھی اہم ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہاکہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، سپریم کورٹ میں57 ہزار کیسز التوا کا شکار ہیں، پارلیمنٹ بہتری لانا چاہ رہی ہے تو سمجھ کیوں نہیں رہے، اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق بتائیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی تقرری کے پہلے ہی روز جہاں اور کئی غیر معمولی کام کیے وہیں انھوں نے گارڈ آف آنر لینے سے بھی انکار کر دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ آمد پر عملے نے ان کا استقبال کیا، اس موقع پر عملے سے گفتگو میں چیف جسٹس نے کہا کہ آج میری بہت ساری میٹنگز اور فل کورٹ ہے، آپ سب کا تعاون چاہیے۔ سپریم کورٹ کے عملے سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ سائلین کے لیے انصاف کے دروازے کھول دیں۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک کریں جیسے میزبان مہمان کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کی مدد کریں، عدالت میں لوگ خوشی سے نہیں اپنے مسئلے ختم کرانے آتے ہیں۔ اس دوران ایک اور روایت سے اختلاف کرتے ہوئے چیف جسٹس کے چیمبر کے باہر لگی تختی پر چیف جسٹس آف پاکستان کے بجائے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نیم پلیٹ لگائی گئی۔ علاوہ ازیں،
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے ساتھ ہی نئی مثبت روایات جنم لے رہی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صرف اپنے ساتھی ججوں کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر اداروں کے افسران کے لیے بھی ایک مثال ہیں۔ انھوں نے پروٹوکول لینے سے انکار اور 1300 سی سی کی گاڑی میں سفر کر کے سادگی کا پیغام دیا ہے جو صرف ان تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ملک بھر میں تمام اداروں اور محکموں کے افسران کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ عوام کے روز افزوں مسائل کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ افسر شاہی نے وسائل کو خود تک محدود کرلیا ہے اور عوام ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تمام وزارتوں، محکموں اور اداروں کے افسران کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے حلف سے وفاداری کرتے ہوئے اپنے فرائض کیسے انجام دیے جاتے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں چیف جسٹس کی تقلید کی جائے تو عوام کے مسائل میں واقعی کمی لائی جاسکتی ہے۔