• news

سید مودودی کاچشمہ فیض

عالمی اسلامی تحریکوں کی ماں جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی کی زندگی ایک کھلی کتاب کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ احیائے اسلام اور امت مسلمہ کی سربلندی ہی ان کی زندگی کا مقصد ٹھہرا اور یہی وہ درس تھا جو انھوں نے نہ صرف جماعت کے کارکنان بلکہ ہر کلمہ گو انسان تک پہنچانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ انسانیت کے ساتھ محبت، ہمدری، ایثار اور قربانی اور بلا تفریق ہر انسان کی خدمت جماعت اسلامی کے کارکنان کا طرہ ¿ امتیاز ہے۔ قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کی خدمت اور ان کی آباد کاری کے لیے جماعت اسلامی نے پہلا امدادی کیمپ والٹن لاہور میں قائم کیا تھا اور بھارت سے آنے والے ہزاروں لٹے پٹے اور زخمی مہاجرین کو اس کیمپ میں طبی امداد دی جاتی اور کئی کئی دن تک ان کی مہمان نوازی اور دلجوئی کی گئی۔ جب تک حکومت کی طرف سے ٹھہرانے کا مستقل انتظام نہیں ہوا، مہاجرین کو جماعت اسلامی کے اس کیمپ میں ٹھہرایا گیا۔ گویا کہ یہ کیمپ مہاجرین کی پہلی عارضی پناہ گاہ تھی۔ اس پناہ گاہ کا سید مودودی نے خود بھی کئی بار دورہ کیا اور مہاجرین کی ضروریات کے متعلق رضا کارکارکنا ن کو ہدایات دیتے رہتے۔
اس وقت سے لے کر آج تک خدمت خلق ہی جماعت اسلامی کی اصل پہچان ہے اور اس جماعت کے ہزاروں کارکنان نے انسانیت کی فلاح رفاہ عامہ کو اوڑھنا بچھونابنا رکھا ہے۔ملک و ملت اور امت پر سیلاب،زلزلہ یا کوئی آفت آئے، جماعت اسلامی کے لوگ سب سے پہلے وہاں موجود ہوتے ہیں۔ کورونا کے دنوں میں الخدمت فاﺅنڈیشن جو جماعت اسلامی سے متعلقہ لوگوں کی ہی ایک آزاد اور خود مختار تنظیم ہے، اس نے ملک بھر میں درجنوں عارضی ہسپتال اور ریلیف کیمپ قائم کیے اور کورونا وائرس کے لاکھوں مریضوں کا علاج کیا۔ مظفرآباد میں آنے والے ہولناک اور تباہ کن زلزلہ جس میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ¿ اجل بن گئے تھے اور کئی شہر اور دیہات تباہی کا شکار ہوئے، اس وقت بھی نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر جماعت اسلامی اور الخدمت فاﺅنڈیشن کی ریلیف سرگرمیوں اور بحالی کے کاموں کو سراہا گیا اور عالمی سطح کے ریلیف کے اداروں نے الخدمت فاﺅنڈیشن کے رضا کاروں کے ذریعے زلزلہ زدگان میں اپنا امدادی سامان تقسیم کروایا۔
اسی طرح دو سال قبل آنے والے سیلاب نے جب ہزاروں گھر ملیامیٹ کردیے، لاکھوں لوگ بے گھرہوگئے تو الخدمت فاﺅنڈیشن نے ان بے گھر ہونے والوں کے لیے بستیاں تعمیر کرکے انہیں چھت مہیا کی۔ سینکڑوں سکولز اور مساجد تعمیر کروائیں۔ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں میں پانی کے کنویں، ہینڈ پمپ اور واٹر فلٹریشن پلانٹ لگوائے تاکہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل سکے۔ پنجاب کے ہر شہر میں آپ کو الخدمت فاﺅنڈیشن کے نصب کردہ واٹر فلٹریشن پلانٹ نظر آئیں گے۔ صحت کے شعبہ کی طرف دیکھیں تو 70 بڑے ہسپتالوں، سینکڑوں ڈسپنسریاں اور سینکڑوں ایمبولینسز کا ایک جال ہے جو شہروں سے لے کر دیہات اور پسماندہ علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ان ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مریض استفادہ کرتے ہیں۔ یتیم بچوں کی تعلیم اور تربیت اور کفالت کے لیے الخدمت فاﺅنڈیشن کے زیر انتظام ڈیڑھدرجن کے قریب ’آغوش‘ نام سے یتیم خانے قائم ہیں جن میں 20 ہزارسے زائد بچوں کی بہترین انداز میں پرورش ہورہی ہے۔ تعلیم کے میدان میں بھی جماعت اسلامی اور الخدمت فاﺅنڈیشن اگلی صف میں کھڑی نظر آتی ہے،الغزالی ٹرسٹ کے زیراہتمام 750 سے زائد غزالی سکولز خصوصی طورپر دیہاتوں میں غریب بچوں کو وہ تعلیم دے رہے ہیں جو معیار ِتعلیم میں بہت آگے ہیں اور ان سکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ و طالبات میرٹ کی بنیاد پر ملک کی نامور یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
مولانا مودودی کی لکھی گئی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ کا دنیا کی اکثر بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے جس سے اسلام کے ناقدین کو بھی قرآن فہمی کا موقع ملا۔ اس سے لاکھوں نہیں، کروڑوں انسانوں کو اللہ کاپیغام ان کی اپنی زبانوں میں سمجھنے کی سہولت میسر آئی، ان میں سے ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ سید مودودی کے لٹریچر کا ترجمہ دنیا کی 46 زبانوں میں ہو چکا ہے۔ یہ لٹریچر دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور لاکھوں لوگ اس سے استفادہ کررہے ہیں، دین کو سمجھنے اوراسلام کے انسانیت کی فلاح و بہبود کے حوالے سے پیغام کو پہنچانے میں اس لٹریچر کابہت اہم کردار ہے۔ جماعت اسلامی اگرچہ سیاست میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکی مگر اس سے یہ اعزاز نہیں چھینا جاسکتا کہ یہ جماعت ایک حقیقی جمہوری اور پروگریسو جماعت ہے، قومی و بین الاقوامی اداروں کے سروے اس کے گواہ ہیں۔ جماعت کے لوگ کراچی جیسے شہر کے تین مرتبہ میئر، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ممبرز بھی رہے مگر کسی ایک فرد کے دامن پر کرپشن کا کوئی ایک دھبہ موجود نہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک مرتبہ ریمارکس دیتے ہوئے بجا طور پر کہا تھا کہ اگر دفعہ 62اور63کے مطابق پارلیمنٹ کے ممبران کو پرکھا جائے تو پھر سراج الحق کے سوا کوئی بھی نہیں بچے گا۔
ملک میں درجنوں سیاسی جماعتیں ہیں جن میں سے بہت سی جماعتیں کئی عشروں سے حکومت میں بھی رہی ہیں مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عوام کے لیے تعلیم، صحت، روز گار اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں جو کردار جماعت اسلامی کا ہے، وہ کسی دوسری جماعت کا نہیں، ہر مصیبت اور پریشانی کے وقت ریلیف کے میدان میں اگر کوئی نظر آتا ہے تو وہ اسی جماعت کے رضا کار ہوتے ہیں۔ جب سید مودودی کو ’قادیانی مسئلہ‘ لکھنے کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی اور ان سے فوجی حکومت نے معافی نامہ لکھنے کا مطالبہ کیا تو مولانا مودودی نے کہا کہ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں، آسمان پر ہوتے ہیں، اگر آسمان پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو مجھے کوئی بچا نہیں سکتا اور اگر وہاں میری موت کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا تو یہ الٹے بھی لٹک جائیں، مجھے نہیں لٹکا سکتے۔یہ ایمان اور ایقان بلاشبہ اللہ کے کسی ولی کا ہی ہوسکتا ہے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر-دی نیشن