وزیراعظم کا پاسِ عہد
ایشیائی ترقیاتی بنک نے کہا ہے کہ رواں مالی سال الیکشن کرانے سے ملکی معیشت سنبھل سکتی ہے۔ معیشت کا جو حال ہے‘ بنک کی پیش گوئی پر یقین نہیں آرہا‘ لیکن چونکہ یہ بیرون ملک ہمارے اندرونی کھاتوں سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں اس لئے بات ماننا ہی پڑتی ہے۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔ خدا کرے خوشخبری راس آئے کیونکہ ہمارے ملک کو خوشخبری راس نہیں آتی۔
رواں مالی سال جون میں ختم ہوگا۔ الیکشن اس سے کئی ماہ پہلے جنوری‘ فروری میں ہوچکے ہونگے۔ معیشت بحال ہونے کے آثار کب نمودار ہونگے‘ بنک نے یہ بات نہیں بتائی۔ بہرحال یہ تو معلوم ہی ہے کہ تخریب چند لمحوں میں ہو جاتی ہے‘ تعمیر کو بہت وقت چاہئے۔ اب ملاحظہ کیجئے ملک برباد کرنے کیلئے جس پراجیکٹ کا آغاز 2014ءسے کیا گیا اور جو 2017ءمیں عملاً چالو ہو گیا‘ اس نے محض ساڑھے تین سال میں ساڑھے تین سو سال کی تباہی پھیر دی۔ معیشت کے سنبھلتے سنبھلتے نہ جانے کتنے لوگ خاک ہو چکے ہونگے۔
................
نوازشریف نے لندن میں کہا ہے کہ ملک کی تباہی پھیرنے والوں کو اب کی بار نہیں چھوڑا جائے گا۔ ان کا حساب ہوگا۔ اس بار مٹی پاﺅ والی پالیسی نہیں چلے گی۔ اس ضمن میں انہوں نے سات نام لئے۔ دو سابق بڑے جرنیلوں کے اور پانچ چھوٹے ججوں کے۔ حیرت ہے‘ آپریشن کے دولہا راجہ حال مقیم اٹک کا نام انہوں نے لیا ہی نہیں۔ شاید وہ انہیں محض ”پوسٹر بوائے“ سمجھتے ہونگے۔
خدا خیر کرے۔ ماضی میں انہوں نے جنرل مشرف کا حساب لینے کی کوشش کی‘ خود ان کا اپنا ”حساب“ کر دیا گیا۔
عدالتی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ میں ایک بہت اہم آئینی کیس کی کھلی سماعت ہوئی جو ملک بھر کے لوگوں نے براہ راست‘ بذریعہ ٹی وی دیکھی۔ حیرت کی بات ہے‘ اعدادوشمار کے مطابق دو کروڑ گھرانوں میں عدالتی کارروائی کو دیکھا گیا۔ لوگوں نے نیوز چینل ہی لگائے رکھے۔ کسی نے سرچ اوور کرکے ڈرامے یا کھیل والے چینل نہیں لگائے۔
حیرت ہے کہ عوام کی آئینی معاملات میں دلچسپی اتنی بڑھ گئی۔ چھ سات گھنٹے کی یہ کارروائی لوگوں نے بلا تکان دیکھی۔
تاریخ کا منفرد واقعہ ہے۔ لوگوں کو ہر جج کے ریمارکس سننے کا موقع ملا اور پی ٹی آئی کے وکیل جس طرح قانون سے بے خبر نکلے‘ وہ سب انہوں نے دیکھا۔
ایک فاضل جج جسٹس اعجاز الاحسن کے وہ ریمارکس بہت غیرمعمولی توجہ سے سنے گئے۔ جن میں انہوں نے فرمایاکہ جج کا بنایا ہوا قانون‘ قانون بن جاتا ہے۔
عوام کی ”تصحیح الازھان“ ہو گئی جو اس غلط العوام اصول پر یقین کئے بیٹھے تھے کہ قانون پارلیمنٹ بناتی ہے، جج اس کے مطابق فیصلے دیتا ہے۔ بہرحال‘ بڑے قاضی نے فوراً ہی ان ریمارکس کو بیان قراردیدیا اورخود کو اس سے الگ کر لیا۔
انصاف کی اعلیٰ ترین مسند پر نئے مسند نشین آگئے۔ بتایا گیا ہے کہ اس تبدیلی پر اٹک جیل میں مقیم سابق کرسی نشین بہت پریشان ہوا اور اس کے بعد سب سے زیادہ پریشانی بیرسٹر عمران احسن‘ معاف کیجئے گا‘ بیرسٹر اعتزاز احسن کو ہوئی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ان کی پریشانی دیدنی ہے۔ خیر ہم تک جو ان کی پریشانی پہنچی‘ وہ شنیدنی ہی تھی۔
تعجب البتہ بالکل نہیں ہے۔ ظاہر ہے ایک بڑی سہولت چھن گئی۔ وہ دور اب نہیں رہا مزے مزے سے ’چیمبر“ تشریف لے جاتے تھے‘ سارا ٹائم ٹیبل وہاں طے ہوتا تھا۔ ہم یہ رٹ کریں گے‘ آپ اتنے بجے سماعت کریں گے۔ ہم یہ دلیل دیں گے‘ آپ یہ ریمارکس دیں گے۔ پھر یہ فیصلہ صادر ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ تمام معاملات خوش اسلوبی سے چیمبر کے اندر ہی نمٹ جاتے تھے۔ اگلے دن تو رسمی کارروائی ہوتی تھی۔
اب تو ”چیمبر“ پر گویا ”نو انٹری“ کا بورڈ ہی لگ گیا۔ اعتزاز احسن کی پریشانی بجا ہے۔
ایسا ہی معاملہ غلام اسحاق کے ساتھ‘ کوئی چوتھائی صدی پیشتر ہوا تھا۔ کاکڑ فارمولے کے تحت موصوف مستعفی ہوئے۔ وعدہ ہوا تھا کہ صدارتی انتخاب میں آپ کو پھر جتوا دیا جائے گا۔ موصوف خوشی خوشی کاغذات نامزدگی داخل کرانے جب پہنچے تو بتایا گیا کہ پھرسے جتوانے کی سہولت واپس لے لی گئی ہے۔ موصوف کو اتنا ہی صدمہ ہوا جتنا اعتزاز کو‘ لیکن موصوف حقیقت پسند تھے۔ خاموشی سے برداشت کیا اور گھر چلے گئے۔ پھر باقی عمر خانہ نشین ہی رہے۔ اعتزاز احسن صاحب‘ گھر تو آپ کے پاس بھی ہے‘ انتظار کس بات کا
................
چنیوٹ میں ایک گیارہ بارہ سال کے بچے کو پی ٹی ماسٹر نے ڈنڈے سے پیٹ کر ہلاک کر دیا‘ کسی دوسرے بچے نے اس کی شکایت لگائی تھی۔ موصوف نے اپنی عدالت لگا کر سزائے موت سنائی پھر اس پر عمل بھی فوری کر ڈالا۔ پھر کیا ہوا؟ پھر یہ ہوا کہ معاملہ داخل دفتر ہو گیا۔ وجہ یہ کہ جلاد صفت پی ٹی ماسٹر کا ایک بھائی ڈی ایس پی‘ ایک قریبی تعلق دار (ق) لیگ کا سابق ایم این اے ہے۔ اس کی اسمبلی کی رکنیت سابق ہوئی ہے۔ اثرو رسوخ نہیں‘ وہ بدستور حاضر سروس ہے۔
معاملہ یوں داخل دفتر ہوا کہ والدین کو منہ بند رکھنے کی دھمکی دی گئی اور کہا گیا کہ اپنے باقی بچوں کی جان کی خیر مناﺅ۔ سو وہ اپنے باقی بچوں کی خیر منا رہے ہیں۔ نگران حکومت کے کان پر رینگنے کیلئے ابھی تک کسی ”جوں“ کے روانہ ہونے کی خبر نہیں آئی۔
اسلام آباد کی بچی ”رضوانہ“ کو بھی اس دوران انصاف مل گیا ہے۔ اس کی سفاک مالکہ کو ضمانت ایسے ملی جیسے کوئی عید پر گلے ملتا ہے۔ سفاک مالک بدستور منصفی کے منصب پر بیٹھا دادانصاف دے رہا ہے اور دیتا رہے گا۔
................
مبارک ہو‘ اصول پسند وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایفائے عہد کی مثال قائم کر دی۔
وزارت خزانہ نے انہیں سفارشات دی تھیں کہ لاکھوں افسروں کو مفت بجلی کی فراہمی بند کر دی جائے تو ملک کو فائدے ہونگے‘ عوام کو بھی ریلیف ملے گا۔ وزیراعظم نے بیک جنبش قلم یہ سفارشات مسترد کرکے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔
کسی سے یہ ”وعدہ“ کرکے حکومت میں آئے تھے کہ بجلی کا یونٹ 96 روپے سے بھی اوپر لے جائیں گے۔ اگر وہ وزارت خزانہ کی سفارشات پر عمل کرتے تو یہ وعدہ متاثر ہو سکتا تھا۔ اہل وفا کس طرح وعدے کا پاس کیا کرتے ہیں۔