آزاد خالصتان تحریک ایک اور رہنما سکھ دول کینیڈا میں قتل
ٹورنٹو+نئی دہلی + نیویارک(کے پی آئی+این این آئی) بھارت سے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنے والے ایک اور سکھ رہنما سکھ دول سنگھ (سکھا دونیکے) کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2017 میں بھارت سے کینیڈا منتقل ہونے والے سکھ دول سنگھ کو کینیڈا کے شہر ونی پیگ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کیا۔دوسری جانب بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ سکھ دول سنگھ بھارت کو مطلوب خالصہ رہنماو¿ں کی فہرست میں شامل تھا جو بھارتی پنجاب کی پولیس کے افسران کی ملی بھگت سے کینیڈا فرار ہو گیا تھا اور سکھ رہنما ارشدیپ سنگھ (ارشا دالا) کا قریبی ساتھی تھا۔ بھارت نے خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد کینیڈا کے شہریوں کیلئے ویزا سروس معطل کردی۔ بھارت کے ویزا ایپلی کیشن سینٹر بی ایل ایس انٹرنیشنل نے اپنی ویب سائٹ پر یہ اعلان میں بھارتی مشنز کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت نے آپریشنل وجوہات کی بنا پر ویزا سروس معطل کی ہے۔ ویزا معطلی پرعملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ کینیڈا کی ساکھ دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور منظم جرائم کی محفوظ پناہ گاہ بن رہی ہے ۔ کینیڈا نے بھارتی حکومت کی جانب سے کینیڈا میں مقیم بھارتی شہریوں کیلئے جاری کی گئی سفری ہدایات کو مسترد کردیاہے۔کینیڈین امیگریشن وزیر مارک ملر نے کہا ہے کہ کینیڈا دنیا کے محفوظ ترین ممالک میں سے ایک ہے جو قانون کی حکمرانی سے چلتا ہے۔ اخبار کے مطابق مارک ملر نے کہا کہ سب کے لیے پرسکون رہنا ضروری ہے۔ کینیڈا کے پبلک سیفٹی منسٹر ڈومینک لی بلینک نے بھارت کی ٹریول ایڈوائزری پرکہا کہ کینیڈا تمام لوگوں کیلئے محفوظ ملک ہے۔ علاوہ ازیں انتہا پسند ہندوو¿ں نے نئی دہلی میں کینیڈین سفارت کاروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں۔کینیڈین ہائی کمیشن نے تھریٹ الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں سیکیورٹی کی صورتحال پر گلوبل افئیرز کینیڈا نظر رکھے ہوئے ہے، انتہا پسند ہندوو¿ں نے کینیڈین سفارتکاروں کو سوشل میڈیا پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں۔کینیڈین ہائی کمیشن نے مطالبہ کیا کہ بھارتی حکومت ویانا کنونشن کے تحت سفارتکاروں کی سیکیورٹی یقینی بنائے۔ بگڑتی سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر کینیڈین حکومت سفارت خانوں میں اسٹاف کی کمی پر بھی غور کررہی ہے۔تجزیہ نگار اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت ہر طرح کی اختلافی آوازوں کو بند کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے، صورتحال یہی رہی تو کینیڈین حکومت جلد اپنے بھارتی سفارت خانے بند کر دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی مودی سرکار نے اسی طرح کے حربوں سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھارت چھوڑنے پر مجبور کر ڈالا تھا، مودی کے خلاف ڈاکومینٹری نشر کرنے پر بھارتی حکومت نے ٹیکس چوری اور دیگر قوانین کی خلاف ورزی کا بہانہ بنا کر بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے بھی مارے تھے۔جب سے کینیڈا نے بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ مودی سرکار تلملاہٹ کا شکار ہے اور اسے منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل پا رہی ہے۔کینیڈا کے وزیراعظم جسٹس ٹروڈو نے نیو یارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے کہا ہے کہ سکھ علیحدگی پند رہنما کا قتل سنگین معاملہ ہے۔ انصاف کی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔ بھارت اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے اور قتل کی تحقیقات میں تعاون کرے۔ یقینی بنائیں گے کہ کینیڈین نظام کا احترام کیا جائے۔ سکھ رہنما قتل کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے اور ہم یہی کر رہے ہیں۔ کینیڈا بھارت کو اشتعال نہیں دلا رہا نہ مسائل پیدا کر رہا ہے، یہ معاملہ قانون کی حکمرانی کا ہے۔ کینیڈا میں انصاف کا سخت اور آزاد نظام موجود ہے۔ اندرون ملک وزیراعظم مودی سے اپنے خدشات پر کھل کر بات کی تھی۔ بھارت احتساب، انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ہم سے ملکر کام کرے۔ رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی سکیورٹی انٹیلی جن سروس نے ٹروڈو حکومت کو 2017ءمیں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی سرگرمیوں سے خبر دار کیا تھا۔ بھارت سفارتی نیٹ ورک کے ذریعے کینیڈا کی ساکھ کمیونٹی کو ٹارگٹ کر رہا ہے۔ وارننگ کے باوجود کینیڈین حکومت نے معاملہ دبا دیا۔ بھارتی سفارتکار خالصتان کے حامی کینیڈین سکھوں کو بلیک سائٹس میں ڈالنے کا کام کر رہے تھے۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے کینیڈا کے سیاستدانوں پر دبا¶ ڈالتی ہیں۔کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں بھارت کے ایجنٹ کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین کے قتل میں ملوث ہیں۔ نیویارک میں میڈیا سے گفتگو میں جسٹن ٹروڈو نے کہا سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ کا قتل ایک سنگین معاملہ ہے، سکھ رہنما کے قتل کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور ہم یہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا انصاف کی کارروائی کو آگے بڑھایا جائےگا،کینیڈا بھارت کو اشتعال نہیں دلا رہا نہ مسائل پیدا کر رہا ہے، یہ معاملہ قانون کی حکمرانی کا ہے۔