• news

چالباز نواز شریف

خواب شرمندہ ہوا کرتے ہیں، شرمندہ تعبیر نہیں۔ تعبیر کا اضافی لفظ کتابوں میں کتابت کی غلطی سے ڈل گیا اور پھر نقل در نقل ہوتا رہا اور نقصان اس کا یہ ہوا کہ کتنی ہی نسلیں ”تعبیر“ کے انتظارمیں گزر گئیں اور یہ سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ تازہ بیتی آپ نے دیکھ لی۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بہت سے نادانوں نے یہ خواب دیکھا کہ امیروں کی جیب بھرنے کے لیے غریب کا پیٹ کاٹنے کا جو مشن عمران خان نے (اور ان سے پہلے مشرف نے) شروع کیا تھا، اتحادی حکومت اسے روک لگائے گی لیکن شہباز کی زیر قیادت عمران مشن کو مزید آگے بڑھایا گیا اور مزید در مزید کی ذمہ داری اب نگران حکومت نصراللہ خاں کاکڑ کی ”ولولہ“ انگیز قیادت میں بطریقِ احسن ادا کر رہی ہے۔ 
ایسے میں آئی ایم ایف کا تازہ ہدایت نامہ بے کار محض اور لوگوں کو مزید لاحاصل خواب دکھانے کی سعی مذموم کے سوا کچھ نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ زیادہ ٹیکس امیروں پر لگائے جائیں۔ آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجوا نے نگران وزیر اعظم نصراللہ کاکڑ سے ملاقات میں کہا کہ امیروں سے مزید ٹیکس لئے جائیں اور غریبوں کو تحفظ دیا جائے۔ 
ظاہر ہے، اس بیان کو پڑھ کر بہت سے کم فہم پاکستانی اس ”بدخوابی“ میں مبتلا ہو جائیں گے کہ آئی ایم ایف کا حکم ہے، اب اچھے دن آئے کہ آئے....
اگر آئی ایم ایف کا یہی مشورہ ماننا تھا تو ”اشرافیہ پسند“ کاکڑ صاحب کو حکومت لینے میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی وہ تو آئی ایم ایف کا پہلا مشورہ ماننے پر ہی اکتفا کریں گے کہ بجلی گیس مہنگی سے مہنگی کرو، پٹرول پر ٹیکس بڑھاتے جاﺅ۔ ویسے بھی آئی ایم ایف کے دانت دکھانے کے اور ، کھانے کے اور ہیں۔ اس نے قابل عمل مشورہ وہی پہلے والا دیا، دوسرا محض عوام کو بدخوابی میں مبتلا کرنے کے لیے دیا ہو گا۔ 
آئی ایم ایف سے زیادہ کون جانتا ہو گا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اشرافیہ کی بجلی گیس پٹرول کا خرچہ غریب عوام بھرتے ہیں۔ 
________________
شہباز شریف لندن سے واپسی کے ایک روز بعد پھر اچانک لندن روانہ ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ کہیں سے کوئی اشارہ ملا اور نواز شریف کو تازہ پیغام دینے کیلئے کہا گیا۔ ضرور یہ پیغام ایسا رازداری کا ہو گا کہ مریم نواز جو پہلے سے طے شدہ دورے پر لندن جا رہی تھیں، ان کے ہاتھ بھجوایا نہیں جا سکتا ہو گا۔ 
شہباز شریف بڑے بھائی کے بہت زیادہ ہمدرد ہیں۔ وہ انہیں خاصی مدت سے سمجھانے میں مصروف ہیں کہ بڑے بھیا، آپ بہت تھک گئے ہوں گے ، اب وزارت عظمیٰ کی یہ بھاری ذمہ داری مجھے ادا کرنے دیں۔ اور پھر یہی بات انہوں نے ”بڑوں“ سے بھی کی کہ بڑے بھیا بہت تھک گئے ہیں، انہیں پیغام دیں کہ وہ آرام کریں۔ ان پر آنے والی وزارت عظمیٰ کی متوقع ”مصیبت“ کو میں گلے سے لگانے کیلئے تیار ہوں۔ 
باجوہ صاحب تو ان کی بات مان گئے تھے وہ تو لیکن جلد ہی چلے گئے۔ اب دیکھئے....
________________
باجوہ صاحب سے یاد آیا، نواز شریف نے تازہ تقریر میں فیض اور باجوہ دونوں پر سخت تنقید کی کہ وہی ملک کو تباہ کرنے کے ذمے دار ہیں۔ اس پر بظاہر ایک بہت ہی لاجواب قسم کا سوال ان سے کیا جا رہا ہے کہ ایسا ہے تو پھر باجوہ کی مدّت ملازمت (ملازمت کا ترجمہ یہاں بادشاہی ہے) میں تین سال کی توسیع انہوں نے کیوں دی۔ 
سیاست میں چالیں اصول پسندی کے پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔ توسیع کی کہانی دلچسپ ہے اور سیاسی چالبازی کی کامیابی کا ایک نمونہ۔ اصول پسندی اور چالبازی کا متوازی ہونا سمجھنا ہے تو سوویت یونین کے امریکہ سے اتحاد کی مثال دیا کیجئے۔ سوویت یونین اشتراکیت کا علمبردار، سرمایہ داری کا دشمن، امریکی سامراج اور برطانوی استعمار کا اس سے بھی بڑا دشمن۔ وہ عالمی سرمایہ داری کے خلاف ”عالمی کروسیڈ“ میں مصروف تھا کہ جرمنی اس کے لیے خطرہ بن گیا۔ 
سٹالین سے زیادہ کون سمجھتا تھا کہ روسی فوج دنیا کی سب سے بڑی ”ہارو±" فوج ہے۔ پوری تاریخ میں اس نے ہر جنگ ہاری ہے۔ نپولین کو ماسکو کے اردگرد شکست روسی فوج نے نہیں، برفباری نے دی تھی۔ نپولین جانتا تھا کہ جرمنوں نے حملہ کیا تو ہمارے فوجی بھاگ نکلیں گے یا ہتھیار ڈال دیں گے یا مارے جائیں گے۔ چوتھی آپشن روسی فوج میں ہوتی ہی نہیں، چنانچہ اس نے عالمی شیطان امریکہ سے اتحاد کر لیا۔ جرمن فوج نے اس کے باوجود روسی فوج کو گھر میں گھس کر چار بلکہ چار پانچ چوٹ کی مار دی۔ وہ تو امریکہ نے برلن پر ایسی بمباری کی کہ جرمنی تباہ ہو گیا۔ 
عمران کے دور حکومت کی ٹرائیکا باجوہ ، فیض اور عمران پر مشتمل تھی۔ توسیع کا مسئلہ آیا تو باجوہ اور عمران میں کھٹ پٹ ہو گئی اور فیض اور عمران مل کر باجوہ سے زیادہ طاقتور ہو گئے۔ نواز شریف نے باجوہ کو توسیع دے کر عمران اور فیض اتحاد کو کمزور کر دیا اور پھر عمران و فیض دن بدن کمزور ہوتے چلے گئے۔ نواز شریف توسیع نہ دیتے تو باجوہ کی چھٹی ہو جانے کے بعد دس سالہ پلان پر عمل اس جوڑی کیلئے مشکل نہیں تھا۔ 
سیاسی چال کامیاب ہوئی، نتیجہ بھی ”معرکتہ الاآرا“ نکلا۔ اسی کے تحت دس سالہ خواب آج کل اٹک جیل میں محوخواب ہے اور باجوہ بے چارہ گوشہ خاموشی میں ہے۔ بندیال صاحب بھی گھر جا چکے ورنہ آج توسیع کے تین برسوں میں سے پہلے برس کی ابتدا کر چکے ہوتے۔ 
________________
متروکہ وقف املاک بورڈ نے شیخ رشید کی لال حویلی کو لال، معاف کیجئے گا سیل کر دیا ہے۔ یوں 39 سال سے جاری جنگ میں پہلی بار اس نے فتح حاصل کی ہے۔ لال حویلی دراصل شیخ رشید کی تھی ہی نہیں ، ”حق خدمت“ ”تولیت“ میں لے لیا تھا۔ محکمہ اوقاف نے درجنوں سے زیادہ بار اس کا قبضہ چھڑوانے کی کوشش کی لیکن شیخ جی پر ”ترازو“ کا سایہ ہمیشہ قائم رہا۔ چنانچہ حویلی کے اصل مالک کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔ ترازو ہمیشہ سے اشرافیہ کے ہاتھ کی چھڑی رہا ہے۔ اشرافیہ کے تنو مند فرزند شیخ جی کی اربوں روپے مالیت کا فارم ہاﺅس ان کی اور ان کے گفتنی و ناگفتہ بہ مہمانوں کی جملہ ضروریات کے لیے ضرورت سے کہیں زیادہ کافی ہے لیکن شیخ جی کا من لال حویلی کو چھوڑنے کیلئے کبھی راضی نہ ہوا۔ بہرحال، اب وقت بھی ماحولیاتی بدلاﺅ کے زیراثر آ گیا ہے۔ شیخ جی صبر کریں۔

ای پیپر-دی نیشن