کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
کب سے محفلیں منعقد ہورہی ہیں؟ کون بتائے، کس سے پوچھیں، کسی کو نہیں معلوم، ظہور قدسی سے لاکھوں سال پہلے ایک محفل سجائی گئی، کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءنے شرکت فرمائی۔ رب کریم نے خطاب فرمایا اور اس آنے والے کا ذکر فرمایا جس کے آنے کے بعد نہ صرف امتیوں پر بلکہ نبیوں پر بھی دل دینا اور جان فدا کرنا فرض قرار پایا۔
”اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا، جومیں تم کو کتاب حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانااور ضرور اسکی مدد کرنا، سب نے عرض کی، ہم نے اقرار کیا فرمایا گواہ ہوجاﺅ اور میں اب تمہارے ساتھ گواہ ہوں“۔
عقل یہ کہتی ہے کہ جب یہ عظیم الشان پیمان محبت باندھا گیا اور آپکی آمد اور ولادت وبعثت کا ذکر کیا گیا تویقیناً اس جہاں سے اس جہاں میں آخر ہرنبی نے اپنی اپنی امت سے یہ عہد لیاہوگا اس آنے والے کا چرچاکیاہوگا، اس کا ذکرولادت کیا ہوگا، پھر بھی کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار محفلیں سجی ہونگی۔
سورہ انعام میں بھی یہی فرمایا۔
جن کو ہم نے کتاب دی اس نبی کو پہچانتے ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں جنہوں نے اپنی جان نقصان میں ڈالی وہ ایمان نہیں لائے۔
توجب اس کی یاد دلوںمیں بس گئی اور روحوں میں سماگئی تویقینا ہرزبان پر اسی کا ذکرہوگا، اس کو اپنی مصیبتوں میں وسیلہ بناتے ہونگے۔ اس کو اپنا سہارا سمجھتے ہونگے، قرآن حکیم سے اس محبت و وارفتگی کا حال پوچھئے، سنیے سنیے وہ کیا فرمارہاہے۔اور اس سے پہلے وہ یہودی اس نبی کے وسیلے سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا ، اس سے منکر ہوبیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر۔
ہاں، کیوں ہاتھ پھیلاتے، کیوں نہ دعائیں مانگتے کہ شب وروز اسکے ذکر واذکار سے فضائیں گونج رہی تھیں، محفلیں سج رہی تھیں، آخری محفل کا حال تو قرآن حکیم میں بھی بیان کیاگیا، محفل سجی ہے ہزاروں مسلمان جمع ہیں، ایک اہم اعلان ہونیوالاہے، سب منتظرہیں سنئے قرآن حکیم سے کیا آواز آرہی ہے۔
اوریاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا، اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتاہوا اور ا±ن رس±ول کی بشارت س±ناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے، ا±ن کا نام احمد ہے،پھر جب احمد ا±نکے پاس روشن نشانیاں لےکر تشریف لائے، وہ بولے یہ کھ±لا جادو ہے۔ حضرت عیسیٰ علی نبیّنا وعلیہ السّلام نے آنے والے کی آمد آمد کی خوشخبری بھی س±نائی اور خوشی منانے کا سلیقہ بھی سکھایا۔ اپنے چاہنے والوں کے لیے رب کریم کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلائے اور د±عا کی، اے زمین پر کھلانے والے، آسمان سے بھی ہم کو کچھ عطا فرما۔ قرآن حکیم میں یہ سارا واقعہ بیان کیا گیا ہے، س±نیے اوراس واقعہ سے خوشی منانے کا سلیقہ سیکھئے۔
جب حواریوں نے کہا، اے عیسیٰ بن مریم! ”کیا آپ کا رب ایسا کرےگا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان ا±تارے۔“ کہا ”اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو“ .... بولے ”ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل ٹھہریں اور ہم آنکھوں دیکھ لیں کہ آپ نے ہم سے سچ فرمایا اور ہم اس پر گواہ ہو جائیں“ .... عیسیٰ بن مریم نے عرض کی”اے اللہ! اے رب ہمارے! ہم پر آسمان سے ایک خوان ا±تار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو، ہمارے اگلوں اور پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور ت±و سب سے بہتر روزی دینے والا ہے“ اللہ نے فرمایا کہ ”میں اسے تم پر ا±تارتا ہوں۔“
غور فرمائیں خوانِ نعمت ا±ترے تو حال اور مستقبل والوں کیلئے عید ہو اور جانِ نعمت ا±ترے تو پھر ماضی و حال اور مستقبل والوں کیلئے کیوں عید نہ ہو؟ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی اس رمز محبت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے.... عید منانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کی نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور ایک آن نعمت کو نہ بھلایا جائے اور اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کو نہ بھلایا جائے کیونکہ نعمت کو یاد کرنے سے منعم یاد آتا ہے، یہی ہر انسان کی نفسیات ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نعمتوں کو یاد کرنے کی بار بار ہدایت فرمائی ہے۔ پھر جانِ نعمت کو یاد کرنا اور بھی ضروری ہوا یہ یاد کرنا رب کریم کی سنّت ہے، نبیوں کی سنّت ہے، فرشتوں کی سنّت ہے، نیک مسلمانوں کی سنّت ہے۔رب کریم خود فرما رہا ہے ہم بار بار س±نتے ہیں، نہ معلوم غور کیوں نہیں کرتے۔بے شک اللہ اور اسکے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس نبی پر، اے ایمان والو! ان پر در±ود اور خوب سلام بھیجو۔
ہرمحبت کرنے والا اپنے محبوب کو یاد کرنے میں اور اس کا ذکر س±ننے میں سرور و سکون محسوس کرتا ہے، ذکر کرنے والوں سے محبت کرنے لگتا ہے، یہ عشق و محبت کی فطرت ہے، جو اسکے خلاف کرے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر عاشق نہیں ہو سکتا۔ دل یہی کہتا ہے، عقل یہی کہتی ہے۔ تاجدار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کےلئے محبت شرط اوّل ہے۔کس کی مجال کہ سرتابی کرے، کس کی جرا¿ت کہ سرکشی پر کمرباندھے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
٭....٭....٭