خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل اور بھارت کی مشکلات
ان دنوں بین الاقوامی تعلقات پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے جو موضوعات سب سے زیادہ زیر بحث آرہے ہیں ان میں سے ایک کینیڈا کے مغربی صوبے برٹش کولمبیا کے قصبے سرے میں ہونے والا خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل ہے۔ رواں برس جون کی 18 تاریخ کو گرودوارہ نانک صاحب کے احاطے میں قتل ہونے والے 45 سالہ ہردیپ سنگھ نجر بھارتی حکومت کو کئی مقدمات میں مطلوب افراد میں شامل تھے اور ان کے سر پر دس لاکھ بھارتی روپے کا انعام بھی تھا۔ بھارت سے پنجاب کی علیحدگی کی تحریک کے حامی ہردیپ نجر کو بھارتی حکومت نے تین برس قبل جولائی 2020ءمیں دہشت گرد قرار دیا تھا۔ ہردیپ نجر نے تو اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا لیکن بھارتی حکومت مسلسل ان کے پیچھے پڑی رہی کیونکہ وہ دنیا بھر میں خالصتان تحریک کے حق میں ہونے والا آنلائن ریفرنڈم کرانے والے افراد میں نمایاں تھے۔
ہردیپ نجر کے قتل کے بعد کینیڈا میں مقیم سکھ کمیونٹی میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور کینیڈین حکومت بھی اس معاملے میں بھارت سے سخت ناخوش ہے جس کا اثر دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں تناو¿ کی شکل میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ کینیڈا نے اس قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں بھارت کے سفارت کار پون کمار کو ملک بدر کردیا ہے۔ پون کمار مبینہ طور پر کینیڈا میں بھارت کے خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انیلسس ونگ (را) کے سربراہ تھے۔ بھارت نے کینیڈین حکومت کے اس اقدام پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کینیڈا کے ایک سینئر سفارت کار کو اپنے ملک سے نکال دیا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اپنی پارلیمان میں خطاب کے دوران یہ بتا چکے ہیں کہ ان کے پاس ہردیپ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے قابلِ اعتماد ثبوت ہیں۔ ایک موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جسٹن ٹروڈو نے یہ بھی کہا کہ بھارتی حکومت کو قتل کے اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی ہردیپ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کو انتہائی سنجیدہ قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے کینیڈا کی طرف سے تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت کو کسی دوسرے ملک میں ہونے والی ایسی کسی واردات میں ملوث قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو بھارت کی اس نوعیت کی وارداتوں کا کئی بار شکار بن چکے ہیں۔ اسی لیے پاکستانی سیکرٹری خارجہ محمد سائرس سجاد قاضی نے مذکورہ واقعے کے سامنے آنے کے بعد یہ کہا کہ بھارت کی کینیڈا میں دہشت گردی پاکستان کے لیے حیرانی کی بات نہیں۔ اقوام متحدہ کے پاکستان مشن میں پریس بریفنگ کے دوران سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ کینیڈین وزیراعظم نے مذکورہ قتل سے متعلق جو الزام لگایا ہے اس میں کچھ توحقیقت ضرور ہوگی ۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کررہا ہے اور پاکستان میں عدم استحکام کی کارروائیوں میں بھی ملوث ہے۔ ادھر، ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے بھی اس واقعے سے متعلق بات کرتے ہوئے اپنی ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ کینیڈا میں بھارت کی طرف سے ایک سکھ کی ٹارگٹ کلنگ افسوس ناک ہے، بھارت دہائیوں سے جنوبی ایشیا میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اور ترجمان دفتر خارجہ نے بھارت سے متعلق جو کچھ کہا وہ محض الزامات نہیں ہیں، پاکستان کئی بار بھارت کے پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کے سامنے رکھ چکا ہے۔ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن سدھیر یادیو کی 2016ءمیں بلوچستان سے ہونے والی گرفتاری اور اس کے بعد کیا جانے والا اعترافِ جرم بھی یہی بتاتے ہیں کہ بھارت دوسرے ممالک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ پاکستان نے جب بھی ان معاملات سے متعلق بین الاقوامی برادری سے بات کی، اس کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی لیکن اب کینیڈا میں پیش آنے والے واقعے کے بعد امریکا اور برطانیہ سمیت بہت سے اہم ممالک نہ صرف تحقیقات کا تقاضا کررہے ہیں بلکہ وہ بھارت سے یہ مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ وہ اس واقعے سے متعلق سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے اپنے کسی بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ مستحکم تعلقات نہیں ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے لیے ایسی کارروائیاں کرتا رہتا ہے جنھیں دیگر ممالک کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرسکتے۔ انھی کارروائیوں کی وجہ سے اسے یہ حوصلہ ملا کہ وہ ہزاروں میل دور واقع کینیڈا میں سیاسی اختلافات رکھنے والے ایک شخص کو قتل کرائے لیکن قتل کی یہ واردات کئی اعتبار سے ان کارروائیوں سے بہت مختلف ہے جو بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں کرتا رہتا ہے اور اس سے اس کی جان جلد چھوٹتی دکھائی نہیں دیتی۔ کینیڈین حکومت نے اس معاملے کو جس سنجیدگی سے لیا ہے وہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے بیانات سے بھی واضح ہے اور کینیڈا نے بھارتی سفارت کار پون کمار کو اپنے ملک سے بے دخل کر کے جو اقدام کیا ہے اس سے بھی پوری طرح عیاں ہوتی ہے۔ اگر بھارت نے اس حوالے سے سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے کینیڈا اور اس کے حلیف ممالک کے مطالبات پر توجہ نہ دی تو آنے والے وقت میں بین الاقوامی سطح پر اس کی مشکلات بڑھنے کا امکان ہے۔
٭....٭....٭