• news

ادھورے لوگ

ایک زمانہ تھا، جب گھروں میں خوشی کے موقع پررقص کرنے کے لیے خواجہ سراﺅں کو بلایاجاتا تھا۔بعض اوقات تو وہ کوئی نذر نذرانہ وصول کرنے کے لیے خود سے گھروں پردھاو ا بھی بول دیتے تھے۔ اکثر بازاروں، چوراہوں اورعوامی مقامات پر یہ بندگانِ خدا چہروں پرمیک اپ کیے چند روپوں کی امید پرآپ کا راستہ روک لیتے ہیں،اس عمل کامقصد شکم کے تنور کو بھرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔کوئی خدا ترس رحم کھاتے ہوئے ان کی مدد کردے تواور بات ہے،ورنہ اکثر رذیل لوگوں کے آوارہ جملے ہی ان کی سماعتوں سے ٹکراتے ہیں۔اس مخلوق کے کان فحش آوازیں اور گھٹیا باتیں سننے کے عادی ہیں۔ انسانی استحصال کی یہ صورت ہرجگہ اور ہر مقام پرپائی جاتی ہے۔ 2018ء میں خواجہ سراﺅں کے سماجی حقوق کی بحالی کے لیے ٹرانس پروٹیکشن بل آیا،یہ اس دورکی حکومت کا خوش آئند قدم تھا، جس کے نتیجے میں ان کے شناختی کارڈبنائے گئے،جامعات نے انکی مفت تعلیم کے انتظامات کیے اورانھیں ایک الگ تیسری صنف کے طورپر شناخت دلانے کی تحریک کا آغازہوا۔اسکے باوجود مسائل جوں کے توں رہے۔ 
دوسال پہلے کاواقعہ ہے میں نئی آنے والی کلاس کوپڑھانے کے لیے لیکچر روم میں داخل ہوا تو ایک نوجوان پرنظرپڑی،اس کی گفتگو اورعادات واطوار سے اس کے صنفی طور پرادھورے پن کااندازہ ہوا ،اس نوجوان کے والدایک جج تھے، یعنی وہ مالی اور سماجی طوپربھی کمزورنہ تھا،اس نے بڑی سوچ بچارکے بعد لڑکوں کے کالج میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ مقتدر طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک ہی اپنی تعلیم جاری رکھ سکا،حالات وواقعات بھی اس کے خلاف تھے،اس نے خود مجھے بتایا کہ میرے اپنے لیے اس ماحول میں تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے۔یوں نہ چاہتے ہوئے بھی اسے کالج چھوڑنا پڑا۔خواجہ سرا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ جس نے میری مادر علمی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ”فرہنگ خواجہ سرایاں“ کے عنوان سے ایم فل کی سطح کا تحقیقی مقالہ لکھاتھا۔ پبلک سروس کمیشن کے تحت اردو کے لیکچرر کی سیٹیں مشتہر ہوئیں تو اس کی درخواست در کردی گئی۔
ایک طویل جدوجہدکے بعدعدالتی احکام پراسے جائز امیدوار تسلیم کیا گیا۔معاشرتی سطح پر اپنے حقوق کی بازیافت کی یہ تحریک جانے کب تک جاری رہے گی۔ہمارے شاعروں ،صورت گروں اور افسانہ نویسوں کو قومی سطح پر خواجہ سرا ﺅں کی حمایت میں آگے آنا چاہیے، مصوروں اور نقش گروں کوان کے شانے سے شانہ ملا کرچلنا چاہیے،انسانی حقوق کی اس پامالی کے خلاف ہرسطح پرآوازاٹھانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر طارق علی شہزاد کا ناول ”ادھورا“اوراس نوع کی دیگرکتابیں کسی نہ کسی حدتک اس روایت کو بنیاد فراہم کرتی ہیں،اس کالم کا محرک اردو کے معروف شاعر صابرظفر کاتازہ شعری مجموعہ ہے۔انھوں نے خواجہ سرا ﺅں کے محسوسات کی ترجمانی کرتے ہوئے ”خزانہ ہائے غم دہرکے فقیر“کے عنوان اپنی شعری کاوش پیش کی ہے ،یہ مجموعی طورپران کا پچاسواں شعری مجموعہ ہے، صابر ظفرایک عہدساز شاعرہیں، ایک زمانہ ان کی غزل گوئی اور گیت نگاری کامعترف ہے، صابر ظفر کی غزلیں گانے والوں میں منی بیگم،غلام علی، گلشن آرا سیداورنیرہ نور جیسے اہم لوگ شامل ہیں۔ محمدعلی شہکی،نازیہ حسن،سجادعلی اور حدیقہ کیانی کی آواز میں گائے ہوئے انکے گیتوں نے بین االاقوامی شہرت حاصل کی ہے۔انکے فکری وشعری سفرکا ایک پڑاﺅ اس کتاب کی شکل میں منظر عام پرآیاہے۔ اس کتاب میں شامل غزلوں میں بڑے مہذب اندازکے ساتھ خواجہ سرا طبقے کے جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ صابر ظفر نے بڑ ے خوب صورت انداز میں اپنی شاعری کو ایک سماجی مسئلے کی نشاندہی کے لیے وقف کیاہے۔
اس نوع کی سچی شاعری پر ایسا ترقی پسند ادب انکے اشعار میں موجود مشاہدے کی گہرائی اور عمدہ اسلوب بیان قاری کو حیرت میں مبتلاکردیتاہے۔ یہاں ”خزانہ ہائے غم دہرکے فقیر“میں سے چند اشعار پیش کیے جارہے ہیں۔
خزانہ ہائے غم دہر کے فقیر ہیں ہم 
قفس نظرنہیں آتا مگر اسیر ہیں ہم
ہمارے عشق کے اطوار ہیں ہوس کا شکار
حقیرلگتے ہیں یاواقعی حقیر ہیں ہم
میں ہوں وہ ایک مورت آدم کی
جس کی مٹی نہ ٹھیک ہے نم کی
نصیب پیکرِزن ہو نہیں سکا ہے سواب
مرے وجودکو مردانگی کی حسرت ہے
بسرنہ کرنے دے دنیا، مری حیات مجھے
کرے وہ دفن بھی لاوارثوں کے ساتھ مجھے
کچھ اورتھا مگراب اور ہورہا ہوں میں
ستارہے ہیں بدن کے تغیرات مجھے
نجانے کیوں مری تقدیرآزمائی گئی
نہ چاہتے ہوئے بھی سرجری کرائی گئی
توجہ چاہتاہوں ،تالیاں بجاتا ہوں
جدھر ضمیرنہ چاہے ادھر بھی جاتا ہوں
لباس میں بھی جنھیں لگ رہاتھا عریاں میں
انھی کے ہاتھوں سے ہوتا رہاہراساں میں
ہم لکھ پتی نہیں تھے مگراس کے باوجود
کیوں جانے صفرجیسا عدد کردیا ہمیں
یہ شاعری قاری کے ذہن میں متعدد سوالات پیدا کرتی ہے۔ ذہن کوجھنجھوڑتی ہے۔ ہمارے قلم کاروں کو معاشرتی اصلاح کے اس عمل کی پیروی کرنی چاہیے۔
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن