• news

ہم بھگت رہے، اب مغرب بھارت کے نشانے پر: وزیراعظم

نیویارک(خبر نگار خصوصی+اے پی پی+نوائے وقت رپورٹ) نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی کلید قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی کا دارومدار امن پر ہے، بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ پرامن اور تعمیری تعلقات کے خواہاں ہیں، بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریزاں ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائے، افغانستان میں امن پاکستان کے لئے ناگزیر ہے، پاکستان کی پہلی ترجیح افغانستان سے اور اندرون ملک تمام دہشت گردی کو روکنا اور اس کا مقابلہ کرنا ہے،ہمیں بلا تفریق تمام دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہئے، ہمیں ریاستی دہشت گردی کی مخالفت کرنے کی بھی ضرورت ہے، اسلامو فوبیا نے نائن الیون کے بعد وبائی شکل اختیار کر لی ہے، باہمی احترام، مذہبی علامات، صحیفوں اور مقدس ہستیوں کے تقدس کو یقینی بنایا جائے، سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں اضافہ سے اس کی ساکھ اور قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر، موسمیاتی تبدیلی، اسلاموفوبیا، فلسطین، افغانستان، پاکستان کے معاشی استحکام ، اقوام متحدہ اصلاحات سمیت علاقائی اور بین الاقوامی امور کا جامع انداز میں احاطہ کیا۔وزیراعظم نے علاقائی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ترقی کا دارومدار امن پر ہے، پاکستان معاشی طور پر دنیا کے سب سے کم مربوط خطوں میں واقع ہے، پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خطے مل کر ترقی کرتے ہیں، اس لئے پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ پرامن اور تعمیری تعلقات کا خواہاں ہے۔ انہوں نے تنازعہ کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی کلید ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا تنازعہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے، بھارت نے سلامتی کونسل کی ان قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کیا ہے جوجموں و کشمیر کے حتمی تصفیہ کا فیصلہ اس کے عوام اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے کرنے کا متقاضی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے غیر قانونی تسلط کو برقرار رکھنے کیلئے 9 لاکھ فوجی تعینات کئے ہیں، اس مقصد کے لئے بھارت نے توسیع شدہ لاک ڈاو¿ن اور کرفیو نافذ کر رکھا ہے، کشمیر کے تمام حقیقی لیڈروں کو جیلوں میں ڈال دیا ،پرامن احتجاج کو پرتشدد طریقے سے دبانا، جعلی "مقابلوں" اور نام نہاد "گھیراو¿ اور تلاشی کی کارروائیوں" میں معصوم کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کا سہارا لیا گیا اور اجتماعی سزائیں دی گئیں، پورے کے پورے دیہات کو تباہ کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر تک رسائی، جس کا مطالبہ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق اور ایک درجن سے زائد خصوصی نمائندوں نے کیا تھا، کو نئی دہلی نے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل کی کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہئے، اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ فار انڈیا اینڈ پاکستان کو مزید تقویت دی جانی چاہئے۔ عالمی طاقتیں نئی دہلی کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ پاکستان کی جانب سے سٹرٹیجک اور روایتی ہتھیاروں پر باہمی تحمل کی پیشکش کو قبول کرے۔وزیراعظم نے کہا کہ جنرل اسمبلی کا اجلاس جدید تاریخ کے ایک کشیدہ اور اہم لمحات میں ہو رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے، ہم نئے اور پرانے فوجی اور سیاسی بلاکس دیکھتے ہیں، جغرافیائی سیاست دوبارہ سر اٹھا رہی ہے جبکہ دنیا میں جیو اکنامکس کو فوقیت حاصل ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ دنیا دوسری سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی،وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کے معاشی امکانات پر بھی تاریکی کے سائے نظر آتے ہیں، سود کی بلند ترین شرح کساد بازاری کا باعث بن سکتی ہے،بہت سے ممالک بمشکل دیوالیہ ہونے سے بچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا ہے جس نے تین دہائیوں کے ترقیاتی ثمرات کو متاثر کیا ہے۔ حکومت تیزی سے معاشی بحالی کے لئے پرعزم ہے، ہم اپنے زرمبادلہ کے ذخائر اور اپنی کرنسی کو مستحکم کریں گے۔ ملکی آمدنی کو بڑھائیں گے اور ملکی اور بیرونی سرمایہ کاری لائیں گے، وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے لئے ناگزیر ہے، پاکستان افغانستان میں بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی برادری کے تحفظات میں شریک ہے، پاکستان شام اور یمن میں تنازعات کے خاتمے کی جانب پیشرفت کا خیرمقدم کرتا ہے بالخصوص ہم مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے فلسطین کا المیہ جاری ہے وزیراعظم نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا ، خطرے سمیت بلا تفریق تمام دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہو گا جیسا کہ ہندوتوا سے متاثر انتہا پسند ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کی نسل کشی کی دھمکی دے رہے ہیں۔ حقیقی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے الگ کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اسلامو فوبیا سمیت اس طرح کے خیالات نے انتہا پسندی، نفرت اور مذہبی عدم برداشت کو جنم دیا ہے۔ 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ ہم ڈنمارک کی طرف سے شروع کی گئی قانون سازی اور سویڈن کی طرف سے معاملہ پر غور کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور او آئی سی ممالک اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لئے مزید اقدامات تجویز کریں گے ۔پاکستان اقوام عالم میں ”اشرافیہ “کے نظام پر یقین نہیں رکھتا، اپنے خطاب میں انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھاکہ موسمیاتی تبدیلی اور کرونا کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوا، پاکستان کو خوراک، تیل اور معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، حکومت معیشت کو ٹھیک کرنے میں سنجیدہ ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں، بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے، اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی قراردادوں پر عمل کرنا چاہیے، بھارت خطے میں انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے، دنیا کو دہشتگردی بشمول بھارت جیسی ریاستی دہشتگری کو ختم کرنا ہوگا، ہندوتوا جیسے نظریات نے ہی اسلاموفوبیا کو دنیا میں بڑھایا ہے۔، افغانستان کے امن سے خطے کا امن جڑا ہوا ہے، افغانستان سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش پاکستان میں دہشت گرد حملے کر رہے ہیں۔ان کہنا ہے کہ افغانستان میں عالمی امداد کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔نگران وزیراعظم کا کہنا تھاکہ اسلاموفوبیا کی وجہ سے مسلمانوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، چیلنجز سے نمٹنے کیلئے دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ حکومت امریکا پاکستان بزنس کونسل کی تجاویز کا خیر مقدم کرے گی۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے نظام پر یقین رکھتے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے یو ایس پاکستان بزنس کونسل کے وفد سے ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے کارپوریٹ سیکٹر کو پاکستان کے ساتھ اپنے دیرینہ اور نتیجہ خیز تعلقات کو مزید بڑھانے کےلئے طریقے اور ذرائع پر غور کرنا چاہئے۔کونسل کی صدر ایسپیرانزہ جیلالیان نے نگران وزیراعظم کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے انہیں یقین دلایاکہ امریکا پاکستان بزنسل کونسل حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے اور سرمایہ کاری کے لئے مواقع کی تلاش کے لئے رابطے جاری رکھے گی۔ علاو ازیں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ حکومتوں سے قطع نظر ہمیں مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر اپنا مو¿قف پیش کرتے رہنا چاہئے، چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے، اس سے تعلقات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، بھارت مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھا رہا ہے، پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور وہ سب سے بڑا تجارتی شراکت ہے۔ پی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ پی ٹی وی کی استعداد کو بڑھائیں، بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں وہاں کے رہائشی بھارتی ریاستی دہشت گردی کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں، ان کے حوصلے بڑھانے کیلئے یہ فورم اہم ہے، ہمیں اگر اور کسی معاملہ پر بات نہ بھی کرنی ہو تو ہمیں کشمیر کے تنازعہ پر بات کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے کسی بھی سیشن سے غیر حاضر نہیں ہونا چاہئے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کو اس پر خوشگوار حیرت ہوئی کہ پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اس غیر قانونی کاروبار پر ہاتھ ڈالا ہے، نگران وزیراعظم نے کہا کہ وہ ہماری معیشت کی بہتری چاہتے ہیں اور جو پیسہ انہوں نے ہمیں دیا ہے وہ اس کا تحفظ چاہتے ہیں، ہم بذات خود بھی اس بات کا یقین رکھتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، محصولات میں اضافے، حکومتی اخراجات میں کمی، حکومتی حجم کو درست کرنے اور نجکاری شامل ہے، بجلی بلز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری اور عالمی مالیاتی فنڈ کی سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہے کہ کیسے پسے ہوئے طبقہ کو وہ مراعات فراہم کی جائیں جس سے ان کی روزمرہ کی زندگی آسان ہو اور وہ لوگ جو صاحب حیثیت ہیں وہ اپنا حصہ ڈالیں اور معاشی طور پر پسے ہوئے طبقہ کی معاشی خوشحالی کیلئے اقدامات تجویز کئے جائیں اس میں بجلی کے صارفین شامل ہیں، آنے والے دنوں میں بجلی کے بلز نسبتاً کم ہوں گے۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے تحت اگر وہ بجلی پیدا کرتے ہیں یا نہیں کرتے ہمیں انہیں ادائیگیاں کرنا ہوتی ہیں، اس کا کوئی جواز نہیں، اس سائیکل میں اس رویہ کے ساتھ اگلے 50 سال بھی معیشت کو اٹھانے کا دعویٰ جھوٹ ہے، ہمیں خود اور لوگوں سے سچ بولنے کی ضرورت ہے، اور آنے والی حکومت اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچائے تاکہ یہ مسئلہ حل ہو، سکھ رہنما کو کینیڈا میں بھارتی ایجنٹوں نے جس طرح قتل کیا ہے بھارت نے بطور ریاست ایک انسانیت کا قتل کیا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے، ہم اس کو مختلف فورمز پر ضرور اٹھائیں گے اور اس کا مقصد ہندوتوا کے سیاسی ایجنڈے کی گھناﺅنی سازش سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے، یہ گھناﺅنا کھیل اس خطے اور دنیا کو جنگ کی آگ میں دھکیل سکتا ہے، ہم اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، ہمارے صوبے بلوچستان میں بھی قتل و غارت گری میں ہندوستان کی ریاست براہ راست ملوث پائی گئی ہے، کلبھوش یادیو کی صورت میں ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں جنہیں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، ہم بھارت کا یہ چہرہ بھگت رہے ہیں، اب مغربی ممالک بھی نشانہ بن رہے ہیں، ہم طعنہ زنی سے اجتناب کرتے ہوئے انہیں آگاہ کریں گے کہ اس خطرے کو بھانپیں اور اس کو روکنے کی تیاری کریں۔ چین کی معاشی اور دفاعی ترقی کے حوالے سے لوگوں کی مختلف رائے ہے، امریکی معاشرے میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ یہ مسابقتی ترقی ہے اس کو منفی یا دشمنی قرار دینا درست نہیں، پاکستان ایک خود مختار ملک ہے جس کے چین کے ساتھ انتہائی گہرے تزویراتی تعلقات ہیں جو آزمودہ ہیں، یہ دوستی تھی اور رہے گی، پاکستان چین کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر کسی دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار نہیں کر سکتا، اگر اس حوالے سے کسی کی سوچ ہے تو وہ پاکستان کے قومی مفادات کو سمجھ نہیں سکا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے مغرب اور امریکہ کے ساتھ متنوع شعبوں میں تعلقات ہیں، امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، 10 لاکھ پاکستانی یہاں رہتے ہیں جو امریکہ اور پاکستان میں کردار ادا کر رہے ہیں، ہم جمہوری سفر پر گامزن ہیں اور ہم چاہیں گے کہ ہم امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی جمہوریتوں سے سیکھیں تاہم ہم چین سے دوری اختیار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مغرب کی گود میں بیٹھ کر چین کے راستے کی رکاوٹ بننا چاہتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن