انتخابات اور پاکستان
پاکستان میں انتخابات کی تاریخ خوشگوار نہیں رہی- انتخابات کو" مثبت نتائج" کے ساتھ منسلک کیا جاتا رہا ہے- صاف شفاف اور قابل اعتبار انتخابات کی روایت قائم نہیں کی جا سکی-1956 کے آئین کے تحت 1959 کے اوائل میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا مگر اکتوبر 1958 میں جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کی حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان میں مارشل لاءمسلط کر دیا- جنرل ضیاءالحق نے 5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو ختم کرکے مارشل لاءنافذ کر دیا اور نوے روز کے اندر انتخابات کرانے کا وعدہ کیا- 18 اکتوبر 1977 کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا- سیاسی جماعتیں پارٹی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر رہی تھیں- جنرل ضیاءالحق نے اچانک انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا اور پہلے احتساب اس کے بعد انتخابات کا فیصلہ کیا- انتخابات میں پی پی پی کی فتح یقینی تھی اور "مثبت نتائج" کے امکانات نہیں تھے اس لیے انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے گئے-
2008 کے انتخابات محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے ایک ماہ آگے کر دیئے گئے- سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات آئین کے مطابق نوے روز کے اندر نہ کرائے گئے- پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر باور کرایا کہ آئین کے مطابق نوے روز کے اندر انتخابات کرانا لازم ہے لہٰذا نومبر کے پہلے ہفتے میں انتخابات کرانے کے انتظامات کیے جائیں اور اس ضمن میں اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جائے- چیف الیکشن کمشنر کا موقف یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی روشنی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن پاکستان کا اختیار ہے- الیکشن کمیشن نے اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے-الیکشن کمیشن کے موقف کے مطابق نئی مردم شماری کے تناظر میں نئی انتخابی حلقہ بندیاں لازم ہیں اس لیے 90 روز میں انتخابات ممکن نہیں ہیں- انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے وقت درکار ہے-الیکشن کمیشن پاکستان کے اعلان کے بعد ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے - مسلم لیگ نون پی پی پی اور ایم کیو ایم نے انتخابات کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے- اے این پی نے حتمی تاریخ کے اعلان کا مطالبہ کیا ہے- پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے اعلان کو آئین سے انحراف قرار دیا ہے اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عدلیہ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے- تحریک انصاف کا موقف ہے کہ آئین کے مطابق 90 روز کے اندر انتخابات کرانا لازم ہے- پاکستان میں انتخابات کے سلسلے میں غیر یقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے اور سوشل میڈیا پر مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں- امریکہ نے آئین کے مطابق انتخابات کرانے پر زور دیا ہے- ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اگلے سال الیکشن کے بعد معاشی استحکام پیدا ہو سکتا ہے- نگران حکومت معاشی استحکام کے لیے جو کوششیں کر رہی ہے ان کے لیے لازم ہے کہ سیاسی بے یقینی کو ختم کیا جائے - الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے اعلان کے بعد سات روز کے اندر انتخابی شیڈول جاری کرنا ہے- انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق کا مسودہ سیاسی جماعتوں کو ارسال کر دیا گیا ہے- پی پی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ صاف شفاف انتخابات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دیا جائے- اگلے انتخابات انتہائی کشیدہ صورتحال میں کروائے جا رہے ہیں-
تحریک انصاف پاکستان کی مقبول سیاسی جماعت ہے اس کے مرکزی لیڈر جیل میں ہیں یا روپوش ہیں- ان حالات میں یک طرفہ انتخابات کے نتائج پاکستان کی سلامتی اور اتحاد کے لیے مضر ثابت ہو سکتے ہیں- الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے کا اعلان تو کر دیا ہے مگر انتخابات کے حتمی انعقاد کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا- سابق چیف جسٹس پاکستان نے نیب ترامیم کالعدم قرار دے کر اور سیاست دانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات بحال کرکے ریاست کے غیر جمہوری اداروں کے ہاتھ مضبوط کر دیئے- پاک فوج کے آرمی چیف نے بڑے تاجروں سے ملاقات کرکے جو معاشی ایجنڈا دیا تھا- دسمبر میں اس ایجنڈے پر عملدرآمد کے سلسلے میں نظر ثانی کی جائے گی- اگر حالات سازگار ہوئے اور "مثبت نتائج" یقینی ہوئے تو انتخابات کرا دیئے جائیں گے- بصورت دیگر انتخابات ایک بار پھر ملتوی کیے جا سکتے ہیں- بڑے تاجر دباو ڈال رہے ہیں کہ انتخابات سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں سے میثاق معیشت پر دستخط کروائے جائیں - پاکستان کے اگلے انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کروائے جانے چاہئیں تاکہ ان الیکٹیبلز سے قوم کو نجات مل سکے جو سرمایہ کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے قومی دولت کی لوٹ مار کرتے ہیں اور عوام اچھی حکمرانی سے محروم رہتے ہیں - نوجوانوں کی ایک ٹیم نے ریڈ لائن پاکستان فورم تشکیل دیا ہے جس کے مرکزی صدر علی رضا ہیں- گزشتہ دنوں اس فورم نے مولانا ظفر علی خان فاونڈیشن میں یوتھ سیمینار کرایا جس میں اتفاق رائے کیا گیا کہ ریاست کی ریڈ لائن پاکستان اور 25 کروڑ عوام ہیں- پاکستان کی سلامتی ترقی اور خوشحالی کے لیے لازم ہے کہ افراد اور خاندانوں کی بجائے 25 کروڑ عوام کو پاکستان کی ریڈ لائن تسلیم کیا جائے -
راہروانِ "سیاست"کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بڑے سخت مقام آتے ہیں
٭....٭....٭