• news

اتوار‘ 7 ربیع الاول 1445ھ ‘ 24 ستمبر 2023ئ

فیصل آباد میں بجلی چوری پر دہشت گردی کا پہلا پرچہ درج 
بہت اچھا ہوا۔ یہ بہت ضروری تھا۔ اس طرح ہی سہی چلیں کم از کم بجلی چوری تو ختم ہو گی۔ مگر کیا یہ مقدمہ بجلی چوری کرنے والے پر ہی درج ہو گا یا اس کام میں اس کے معاون محکمہ بجلی کے اہلکاروں پر بھی جو یہ سارا معاملہ طے کرتے ہیں اور اپنا ماہانہ حصہ وصول کرتے ہیں۔ دوسری بات جو غریب ایک عدد بجلی کا بلب اور ایک عدد پنکھا چوری کی بجلی سے چلاتا ہے۔ اس کو تو بہرحال اس سنگین مقدمے میں ملوث نہیں کیا جا سکتا۔ اسے بہرصورت رعایت ملنی چاہیے۔ ہاں جو لوگ سالانہ اور ماہانہ لاکھوں کروڑوں کا ہاتھ مارتے ہیں، جن کے بنگلے ، کاروباری دفاتر، فیکٹریاں اور کارخانے چوری کی بجلی سے چلتے ہیں۔ ان کو تو کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر بجلی چور چند ہزار روپے محکمہ بجلی کے اہلکاروں کو رشوت دے کر ان کے توسط سے ماہانہ ہزاروں روپے کا بل بچاتا ہے۔ اسی طرح کنڈا مافیا تو کھلم کھلا بجلی چوری کرتا ہے۔ محکمہ بجلی کو جرا¿ت نہیں ہوتی کے ان پر ہاتھ ڈالے۔ملک بھر میں بجلی چوری عام ہے۔ شہر ہوں یا دیہات کوئی اس وبا سے محفوظ نہیں۔ لے دے کر چند شہروں پر سارا زور ڈالا جاتا ہے۔ اب دہشت گردی کے مقدمے کے اندراج کے بعد شاید کسی بجلی چور کو عقل آئے۔ اگر بجلی والے پہلے ہی بجلی چوروں پر بھاری جرمانے عائد کر کے وصولیاں کرتے ان کے کنکشن کاٹتے تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی مگر جب کتی چوروں کے ساتھ ملی ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ جو میٹر ریڈر ہر ماہ میٹر دیکھ کر بل بناتا ہے کیا اسے کنڈے اور میٹر کی ٹمپرنگ نظر نہیں آتی وہ اس کی شکایت کیوں نہیں کرتا۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ خود بھی اس نیک کام کا حصہ دار ہے۔ جب تک محکمہ بجلی والے سدھرتے نہیں اربوں روپے کی بجلی یونہی چوری ہوتی رہے گی۔ اس لیے مفت بجلی کی فراہمی کا سلسلہ سب کے لیے ختم کیا جائے جو جتنی بجلی استعمال کرتا ہے اس کی قیمت دے۔ 
٭٭٭٭٭
بلوچستان میں 6700 سکولوں میں صرف ایک ٹیچر ہے۔ رپورٹ 
اسی رپوٹ میں یہ چشم کشا انکشاف بھی ہے کہ 4 ہزار سکول اس ایک ٹیچر سے بھی محروم ہیں۔بلوچستان کا یہ شاندار تعلیمی ترقی کا ریکارڈ بتا رہا ہے کہ وہاں کی حکومتوں نے ہمیشہ تعلیم کو ترجیح دی ہے۔ ورنہ ان باقی6 ہزار 7 سو سکولوں میں بھی آج ا±لو بول رہا ہوتا۔ شکر ہے وہاں کم از کم ایک عدد ٹیچر تو دستیاب ہے۔ یہ استاد محترم بھی خدا جانے وہاں یعنی سکول جاتے بھی ہوں گے یا نہیں اس بارے میں راوی خاموش ہے۔ یہ تو اصل حقائق ہیں ورنہ اگر کاغذوں میں یعنی دفاتر میں جا کر محکمہ تعلیم کی فائلوں میں دیکھیں تو ان تمام سکولوں کا عملہ ناصرف موجود ہے بلکہ تنخواہیں بھی لے رہا ہے۔ فائلوں کی پیٹ میں استاد بھی موجود ہیں چپڑاسی بھی، کلرک بھی، چوکیدار بھی،یہ سب سالانہ کروڑوں روپے کا ٹیکا خزانے کو لگا رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ خود وہاں کے سیاسی رہنما بھی سچ کہیں تو اپنے اپنے علاقے میں سکولوں کو چلنے نہیں دیتے۔ ان کے خوف سے کوئی وہاں جانے کو تیار نہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں پسماندگی، ناخواندگی کا راج رہے اور اسکے بل بوتے پر وہ وہاں راج کرتے رہیں۔ وہاں کے حالات کا رونا رو کر عوام کو بے وقوف بنائیں ان کے جذبات بھڑکائیں۔ اربوں روپے ملنے والے فنڈز خود کھا کر دکاڑ بھی نہ ماریں۔ 
اس رپورٹ کے بعد ہی اگر ہمارے نگراں حکمران اس کی سنگینی کا احساس کریں، نور پھیلانے والے ان مراکز کی رونقیں بحال کر کے ان روشنی کے چراغوں کو جہالت اور سیاست کی آندھیوں سے محفوظ رکھیں تو اس میں ہی صوبے کی بھلائی ہو گی۔ یہاں کے بچے تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھیں گے ورنہ ایک سکول میں ایک بے چارہ ٹیچر کیا کرے گا جس کی خود تعلیمی قابلیت بمشکل میٹرک ہو گی۔ اچھی تعلیم کے لیے اچھے اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے پورا کریں۔
٭٭٭٭٭
تیسری بیٹی کی پیدائش پر خاتون جنرل ہسپتال کی تیسری منزل سے کود گئی 
یہ درد نہیں دکھ کی انتہا ہے۔ ایک عورت اپنی کوکھ سے دوسری عورت کے پیدا ہونے پر اپنی جان لینے کا انتہائی قدم اٹھاتی ہے۔ کیا بیٹی کی پیدائش کیا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی پشیمانی پر وہ خودکشی کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے اس ظالم سماج میں بیٹی کے پیدا ہونے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ ہمارے دین میں بیٹی کو رحمت کہا گیا ہے مگر ایک کے بعد دوسری بچی آ جائے تو بات طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ دور جاہلیت میں بچیوں کو زندہ دفنا دیا جاتا تھا۔ مار دیا جاتا تھا۔ یہ رسم آج بھی ہمارے جاہل معاشرے میں جاری ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر منہ بن جاتے ہیں۔ تیور بگڑ جاتے ہیں، عورت کو طعنے س±ننا پڑتے ہیں، یہ سب کچھ جو کرتی ہیں وہ ساس ، نند بھی عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ سائنس کہتی ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی پیدائش میں زیادہ حصہ مرد کے نطفے کا ہوتا ہے۔ مگر وہ تو محفوظ رہتا ہے۔ الزام عورت کے حصے میں آتا ہے۔ سب کی بات نہیں مگر اکثر گھرانوں میں لڑکی کی پیدائش اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ حالانکہ حالات و واقعات شاہد ہیں کہ لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا خیال رکھتی ہے۔ اس جدید دور میں ایسی باتیں اور مظالم نہایت شرمناک ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کیا کیا جائے۔ سوائے ساحر لدھیانوی کے ان اشعار کے
 مدد چاہتی ہے یہ حوا بیٹی 
یشو دھا کی ہم جنس رادھا بیٹی 
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی 
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں 
کب تک یہ ظلم ہوتا رہے گا، بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا رہے گا۔ بیٹی کی پیدائش پر ماں کو خودکشی کی راہ اپنانا پڑے گی۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹی کو دوسرے درے کی مخلوق گردانا جاتا رہے گا۔ ایسا ہمارے دین میں تو کہیں نہیں ہے۔ یہ تو برصغیر کے غیر مسلم سماج کی برائی ہے جو ہم نے اپنا لی۔ اب اس خاتون کی حالت تشویشناک ہے۔ اگر خدا نہ کرے اسے کچھ ہو گیا تو ان بچیوں کو کون سنبھالے گا۔ لڑکی کے حوالے سے ہمیں اپنی چھوٹی سوچ بدلنا ہو گا۔ یاد رکھنا ہو گا بیٹا صرف شادی تک بیٹا رہتا ہے لیکن بیٹی قبر کی گود تک بیٹی رہتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
اے این پی کے رہنما کی ایک کروڑ روپے والی قیمتی انگوٹھی چوری ہو گئی 
یہ تو کوئی قیمتی پتھروالی انگوٹھی ہوگی جبھی تو چوری ہوئی۔کیا اس کے حوالے سے اتنی لاپروائی برتی گئی تھی کہ کوئی اسے اچک کر لے گیا۔ اتنی مہنگی چیز کو اس کا مالک سینے سے لگائے رکھتا ہے۔ اسے ہر وقت نگاہوں کے سامنے رکھ کر ا±وجھل ہونے نہیں دیتا۔ مہنگی نگینوں والی انگوٹھیوں کا شوق ہمارے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں قیمتی پتھروں والی انگوٹھیاں، زیورات کی بہت مانگ ہے۔ لوگ اپنی تسکین کے لیے اسے پہنتے ہیں۔ اسے اپنی امارات کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہیرا، پکھراج، زرقون ، زمرد ، نیلم، یاقوت، عقیق، موتی یہ سب ہمیشہ سے بادشاہوں ، وزیروں اور امرا کے تاج یا ہار کے علاوہ بازو بند اور انگوٹھیوں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ کوہ نور ہیرا آج بھی ملکہ برطانیہ کے یا بادشاہ کے تاج میں جگمگا رہا ہے۔ پہلے کبھی یہ برصغیر میں مسلم بادشاہوں کے خزانے میں ان کی قدر و قیمت بڑھاتا نظر آتا تھا۔ اس وقت بھی دنیا بھر میں کبھی کبھی کسی کان سے قیمتی پتھر ملتا ہے تو دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ 
اب خدا جانے اے این پی کے اس رہنما کی انگوٹھی میں کونسا قیمتی پتھر جڑا تھا۔ آدمی صاحب حیثیت ہو تو ہیرے والی انگوٹھی بھی پہن سکتا ہے۔ پشاور تو قیمتی پتھروں کی مارکیٹ کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ وہاں اعلیٰ سے اعلیٰ ، ادنیٰ سے ادنیٰ پتھر بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ اے این پی ایک قوم پرست جماعت کی حیثیت سے سفید پوش طبقے کی نمائندہ جماعت سمجھی جاتی تھی۔ مگر اب وہاں بھی اچھے خاصے متمول خاندان اور لوگ نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر ایک قیمتی بلور نے جس طرح اے این پی کے کوٹے پر وزیر ریلوے بن کر اور کئی دیگر رہنماﺅں نے ٹرانسپورٹ اور سمگلنگ کے دھندے میں پڑ کر دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی اس کے بعد تو ایک کروڑ کی انگوٹھی پہننا آسان ہوگیا۔ آخر باقی سیاسی رہنما بھی تو کئی کئی کروڑ کی انگوٹھیاں، گھڑیاں، نیکلس ، جھمکے ، کڑے بھی خریدتے پہنتے اور بیچتے ہیں۔ اب اس چوری کی واردات کا سراغ لگانا ضروری ہے کیوں کہ یہ کسی اپنے یا ماہر چور کی واردات ہو سکتی ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن