• news

یک نہ شد دو شد

پنجاب یونیورسٹی میں ہمارا پہلا دن تھا۔تعارفی سیشن میں شعبہ معاشیات کے چیئرمین محترم ڈاکٹر رفیق احمد کا علم و حکمت پر مبنی درس ہمارے دل و دماغ کی اضافی فعالیت کے لئے ایک کامیاب ملَمّع کاری تھا۔ جب انہوں نے اچانک لاہور شہر سے تعلق رکھنے والے سٹوڈنٹس کو کھڑا ہونے کا حکم دیا تو پانچ چھ سٹوڈنٹس (لڑکے اور لڑکیاں) لبوں پہ انجانی سی مسکراہٹ سجائے اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے باری باری ان سے ان کی جائے رہائش کے بارے میں پوچھنا شروع کیا تو ایک لڑکے نے کہا،”سر! میں سمن آباد سے ہوں“ ترنت بولے، " آپ کب سے لاہورئیے ہو گئے؟ سمن آباد تو ابھی کل آباد ہوا ہے". دراصل وہ لاہور کے تیرہ دروازوں کی حدود میں بسنے والوں کے علاوہ کسی اور کو لاہوریا ماننے کے لئے تیار نہیں تھے. وہ اس علاقے کو لاہور تصور کرتے تھے جس پر سعادت حسن منٹو نے افسانے اور استاد دامن نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم "دس کھاں شہر لہور اندر" لکھی تھی.
دس کھاں شہر لہور اندر
کنے بوہے تے کنیاں باریاں نیں
نالے دس کھاں اوتھوں دیاں اِٹاں
کنیاں ٹٹیاں تے کنیاں ساریاں نیں
استاد دامن اور ان کی اِس نظم کو جہاں گلوکارہ جگموہن کور نے منفرد انداز اور خوبصورت آواز میں گا کر امر کیا، وہیں لاہور شہر کی ہمہ جہت خوبیوں کو مزید نکھار بخشا۔ابھی ہم اپنے ذہن کو یونیورسٹی کے خوشگوار ماحول سے ہم آہنگ کرنے کے ابتدائی مرحلے میں ہی تھے کہ ڈاکٹر رفیق احمد صاحب وائس چانسلر بن کر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سدھار گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی جگہ مسز اے۔ آر چوہدری نے بطور چئیرپرسن، شعبہ معاشیات ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ وہ بہت خوش پوش اور خوش گفتار تھیں اور ان کی قابلِ رشک صحت دیکھ کر گمان گزرتا تھا کہ وہ خوش خوراک بھی ہیں۔ ہمارے سینئر طلباءنے ان کے بارے میں ہمیں مطلع کر دیا تھا کہ وہ بہت باآصول، باوقار اور دبنگ خاتون ہیں۔ صنفِ نازک سے تعلق ہونے کے باوجود ایڈمنسٹریشن اور بحث و مباحثہ مردانہ وار کرتی ہیں۔ پر رعب بھی ہیں اور نرم خو بھی۔ 
اس زمانے میں پنجاب یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس یونین کی وہی حیثیت تھی جو ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی ہوا کرتی ہے۔ میڈم کی یہ خوبی تھی کہ وہ اصول و ضوابط کے معاملے میں کسی کو بھی خاطر میں نہیں لایا کرتی تھیں۔ بعد ازاں انہوں نے سوشل سائنسز کی ڈین کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض منصبی بڑے احسن طریقے سے سرانجام دئیے۔
ایک دن ہمارے ایک کلاس فیلو اسلم نے ان سے پوچھا، " میڈم! اِف یو ڈونٹ مائنڈ، میں آپ سے ایک پرسنل سا سوال پوچھ سکتا ہوں" میڈم نے اجازت دی تو اسلم کہنے لگا، " میڈم! کیا آپ کا نام اللہ رکھی چوہدری ہے؟" میڈم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، " نہیں بھئی! میرا نام تو امت الرزاق چوہدری ہے". ایک دفعہ کچھ طلباءمیڈم کے ٹیسٹ میں appear نہ ہوئے. میڈم نے نستعلیق انگریزی میں ان کی اچھی خاصی درگت بنا ڈالی. کلاس کے بعد صابر دوستو ں سے کہہ رہا تھا، "یار میڈم نے جتنی باتیں سنائی ہیں، ان کا ترجمہ کریں تو ہماری اچھی خاصی بے عزتی ہوئی ہے".
یک نہ شد دو شد …. دوسری خاتون پروفیسر محترمہ زینت ماجد تھیں. خوش پوشی اور خوش گفتاری میں مسز اے آر چوہدری کی ہم پلہ. چہرے پر ہر وقت بشاشت اور لبوں پر مسکراہٹ بکھیرے وہ ہر کسی کے ساتھ مشفقانہ انداز میں پیش آتیں۔
 ایک گھنٹے کے لیکچر کے دوران نہ ان کی آواز کے زِیر و بَم اور لفظوں کی روانی میں سرِ مو فرق آتا اور نہ ہی کبھی سلسلہ کلام ٹوٹنے، رکنے، یا تعطل کا شکار ہونے کی نوبت آتی. لفظوں سے موتیوں کی مالا پرونے اور آواز کی موزوں ترین یکسانیت کو برقرار رکھنے کی قدرت شائد اللہ نے بہت کم لوگوں کو ودیعت کی ہوتی ہے.ہم سے سینیئر کلاس کے امتحانات سمسٹر سسٹم کے تحت ہوا کرتے تھے. میڈم زینت ماجد کی طرف سے کسی سٹوڈنٹ کو کبھی رعایتی نمبر ملنے کی کوئی ایک آدھ روایت بھی نہیں ملتی.۔
ایک دفعہ ان کے ایک شاگرد نے ان کے گھر جا کر پنجاب پبلک سروس کمیشن (پی پی ایس سی) میں ہونے والے انٹرویو میں ان سے favour لینا چاہی. میڈم نے ایسا کوئی وعدہ کرنے سے نہ صرف صاف انکار کر دیا بلکہ دوسرے دن چیئرمین پی پی ایس سی کو تحریری طور پر اِس واقعہ سے آگاہ کرتے ہوئے اسے نااہل کرنے کی سفارش بھی کر دی.
جب میں نے اپنی دونوں قابلِ قدر خواتین اساتذہ کے بارے میں لکھنا چاہا تو لاہور میں مقیم اپنے کلاس فیلو پروفیسر محمد خالد پراچہ سے بھی ان کے بارے میں دریافت کیا. خالد پراچہ زمانہ طالب علمی میں ہی طالب علم کم اور پروفیسر زیادہ دِکھتے تھے. تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے اور پروفیسری بھی کرتے رہے. کہنے لگے کہ میڈم اے آر چوہدری ہمدرد شوریٰ کی میٹنگ اٹینڈ کرتی ہیں تو وہاں ا?ن سے ملاقات ہو جاتی ہے. انہوں نے میڈم سے اپنی ایک ملاقات کا احوال بتانا چاہا تو میں نے انہیں ا?ن کے اپنے الفاظ میں لکھنے کی درخواست کی. اِس پر انہوں نے مجھے درج ذیل تحریر بھیج دی.
"استاد کے بارے میں ہر طالب علم کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ ہم سب میڈم امت الرزاق چودھری کو باوقار اور آدابِ زندگی سے آشنا شخصیت مانتے تھے۔ میرا ان سے وقفے وقفے سے رابطہ ہوتا رہتا ہے۔ وہ موجود ہوں اور اپنی موجودگی کا احساس نہ دلائیں، ایسا ممکن نہیں۔۔۔ ہمدرد شوری کا اجلاس اس رابطے کا اہم ذریعہ ہے۔ میڈم تشریف لاتی ہیں اور مکمل دسترس سے اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں. اپنا تبصرہ اور رائے دیتی ہیں.... 
چند ماہ قبل میں فلیٹیز کے متعین مقام پر ایک اجلاس میں اظہارِ خیال کر رہا تھا کہ میڈم تشریف لائیں۔ میں نے بات جاری رکھی اور استقبال میں نشست سے کھڑا ہو گیا۔۔۔یہاں تک کہ میڈم تشریف فرما ہو گئیں .... ڈاکٹر میاں محمد اکرم جو سپیکر کے فرائض انجام دے رہے تھے، نے سارے منظر کی جانب شرکاءاجلاس کی توجہ دلائی۔۔۔
میڈم کی تشریف آوری اور میرے استقبال کرنے کا ذکر کیا۔۔۔ میڈم نے میرے حوالے سے اظہارِ شفقت کیا۔ اس پر ڈاکٹر اکرم صاحب نے مصرع طرح کہا.... مسز چوہدری باکمال شخصیت ہیں۔۔۔ انہوں نے دو تین فقروں میں اپنے شاگرد کو own کیا ہے.... اور اپنے شعبہ معاشیات کی تحسین بھی کر ڈالی ہے ۔ بے شک سب کو ایسا ہی ھونا چاہئیے."
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن