اظہارِ رائے کی آزادی
معاشرتی برائیوں کا سد ِ باب ذاتیات کو بالائے طاق رکھ کرہی کیا جا سکتا ہے۔ جو معاشرہ ذاتی اناءکے گرداب میں دھنس جائے وہ انصاف کے تقاضوں کی پامالی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ اپنی اناءاور عزت نفس کو عدل وانصاف کے درمیاں لا کر عوام کو محکوم بنانا انصاف نہیں ، انصاف مہیا کرناعدالتوں کا اولین فرض ہے۔ عدالت کی توہین کا اقدام عدالتی فیصلے سے بیزاری یا غیر مودبانہ رویہ بنتا ہے جو کہ قابل ِ مذمت ہے، کیوں کہ ایسے رویے فیصلوں کو متنازع بنانے کے علاوہ ججوں کے اختیار کی توہین کے زمرے میں آتے ہیں۔تاہم دنیا کے کئی ملکوں میں عدالتی فیصلوں سے بیزاری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے توہین کے مجوزہ قوانین میں مناسب ترمیم اور نظر ثانی کے موضوع زیر ِ بحث ہیں۔
اظہار ِ رائے کی آزادی ہی جمہوریت ہے ، جمہوریت میں عوام بالادست ہیں ، ٹائمز آف انڈیا نے 28 ، جولائی 2014 ءکی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ” تمام ریاستی ادارے بشمول جج عوام کے ملازم ہیں اسکے علاوہ کچھ نہیں ، پس جمہوریت میں ججوں کو اپنے اختیار کو منوانے یا اپنی عزت و وقار کی نمائش کی کوئی ضرورت نہیں ،ان کا اختیار توہین ِ عدالت کے خوف سے نہیں، انصاف کی بنیادوں پر ہوتا ہے،اور نہ ہی ہم اس اختیار کو ان لوگوں کو دبانے کےلئے استعمال کر سکتے ہیں جو ہمارے خلاف بولتے ہیں۔ ہمیں تنقید کا خوف نہیں اور نہ اس سے ہم خفا ہوتے ہیں ،وہ اس لئے کہ ایک اہم چیز داو پر لگ سکتی ہے،اور وہ ہے ”اظہار ِرائے کی آزادی“۔
ایسے ہی خیالات کا اظہار سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اعتزاز احسن کےخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کیا اور کہا کہ ” یہ عدالت کسی سے غیر ضروری وضاحت طلب نہیں کرےگی، ہمارے فیصلے، فیصلہ کرینگے کہ لوگوں کا عدالت پر کتنا اعتماد ہے “ انہوں نے کہا کہ ” اس عدالت کے خلاف روزانہ وی لاگز ہوتے ہیں خبریں چلتی ہیں ، لیکن عدلیہ کو ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، جس کا جو جی چاہے وہ کہتا ہے لیکن توہین عدالت کی کاروائی اس کا حل نہیں ان غیر ضروری چیزوں کو اہمیت ہی نہیں دینی چاہئے ، انہوں نے سوال کیا کہ ” کیا کسی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی غیر جانبداری پر کوئی شک ہے ؟ غیر جانبداری اور انصاف میں شفافیت شک و شبہ سے بالا تر ہوتی ہے۔
ملکی تاریخ میں کئی سیاستدانوں کو اعلیٰ عدلیہ نے توہین عدالت پر سزائیں دیں، تین وزراءاعظم اور ایک آرمی چیف توہین عدالت کے کیسز میں بری بھی ہوئے ، سنیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت میں ایک ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ کیا گیا ، اس کے علاوہ پانچ برس کیلئے نا اہل بھی قرارپائے ، پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فیصل آباد کے گھنٹہ گھر چوک میں تقریر کرنے پر توہین عدالت کی کاروائی کی گئی۔ میاں نواز شریف پر ان کی حکومت کے دوسرے دور میں توہین عدالت کی فرد جرم لگائی گئی ، مسلم لیگ کے وزراءدانیال عزیز اور طلال چوہدری کو ججوں کےخلاف بیان دینے کی پاداش میں عدالت کی بر خاستگی تک قید اور پانچ سال کےلئے نا اہلی کی سزا سنائی گئی ، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پاکستان کی تاریخ کے واحد وزیر اعظم ہیں جن کو توہین عدالت پر عدالت کی بر خاستگی تک ایک منٹ کی سزا دی اور وزیر اعظم کے منصب سے محروم کر دیا گیا۔
عدالت کی ایک معزز جج کو دھمکی دینے پر عمران خان کو معافی کی ترغیب دے دی گئی۔ یہی نہیں عمران خان وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی توہین عدالت کی کاروائی کا سامنا کر چکے ہیں اور با عزت بری بھی کر دیئے گئے ، جب فیصلوں میں ذاتی پسند اور نا پسند کا عنصر پیدا ہو تو شک وشبہ کا احساس ابھرتا ہے ، ورنہ ایک عام آدمی توہینِ عدالت یا ججز کی ذاتی توہین کا تصور بھی نہیں کر سکتا ،تاریخ گواہ ہے کہ ایسا وقار اور اختیار استعماری ادوار میں بادشاہوں کو حاصل تھا ، جو کہ خود مختار ہونے کے ساتھ خود ہی منصف تھے۔ جب شاہوں نے فیصلے کے اختیارات اپنے نمائندوں کو سونپے تو یہ بہت ضروری تھا کہ ان کی عزت اور وقار کو بھی ملحوظ ِ خاطر رکھا جائے لہذا ان کی تابعداری اصل میں باد شاہ کی تابعداری تھی ، محکوم عوام بادشاہ یا بادشاہ کے نمائندوں پر تنقید نہیں کر سکتے تھے ، کیونکہ شاہی دور میں تنقید پر سخت سزا تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا توہینِ عدالت غیر جانبدارانہ فیصلوں پر اثر انداز تو نہیں ہو رہی۔ اگر توہینِ عدالت فیصلوں پر حاوی ہوتی ہے تو اس کا نوٹس لازمی لینا چاہئے ورنہ جیسا کہ معزز جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ” توہین عدالت کی کاروائی اس کا حل نہیں ان غیر ضروری چیزوں کو اہمیت ہی نہیں دینی چاہئے۔ توہین ِ عدالت سے ملکی نظام میں خلل کے باعث افراد کے متاثر ہونے کے علاوہ اظہارِ رائے کی آزادی سلب ہو جاتی ہے ، جس سے اصلاح کا پہلو نہیں رہتا جو کہ ایک لمحہءفکریہ ہے۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین ہارون الرشید نے امید ظاہر کی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ججوں کے خلاف زیرِ التوا شکایات کا فیصلہ کریں گے اور آئینی معاملات کا قانون اور عدالتی روایات کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ لہذا نئے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کےلئے سب سے بڑا چیلنج عدالت عظمیٰ کے وقار اور غیر جانبداری کو بحال کرنا ہے ، جبکہ انکے پیش رو جسٹس عمر بندیال پر عمران خان اور انکی پارٹی کے دوسرے عہدِ داروں کیلئے نرم رویہ رکھنے کا لزام ہے ، سرِ دست سیاسی مقدمات اور توہین ِ عدالت جیسے مقدمات کی سماعت میں الجھنے کے بجائے سپریم کورٹ میں زیرِ التوا 56ہزار سے زائدمقدمات کو نمٹانے پر توجہ دینا ہوگی تاکہ اظہار ِ رائے کی آزادی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری بحال ہو سکے۔
٭....٭....٭