• news

منگل‘ 9 ربیع الاول 1445ھ ‘ 26 ستمبر 2023ئ

اسرائیل سے تعلقات کا فیصلہ، پاکستان ، فلسطین کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کریں گے۔ وزیر خارجہ 
اول تو ہمیں یہ بات کہنے کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی یہ ہماری طے شدہ قومی پالیسی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے ہم تسلیم نہیں کرتے۔ یہی پالیسی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی طے کر دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے پاسپورٹ پر اسرائیل کا نام ہی درج نہیں۔ کوئی پاکستانی اسرائیل جانے کا نہیں سوچ سکتا اسے تسلیم کرنے کی تو دور کی بات ہے۔ بے شک اس وقت دنیا کے کئی ممالک جن میں ہمارے عرب بھائی اور دوست بھی شامل ہیں اسرائیل کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ ہماری اپنی آزاد پالیسیاں ہیں۔ عالمی سطح پر اقوام متحدہ بھی فلسطینیوں کے حق میں دو آزاد ریاستوں کی بات کرتی ہے۔ ہم نے فلسطینی اتھارٹی والی ریاست کو تسلیم بھی کر رکھا ہے۔ کیا یہی کافی نہیں کہ ہم آج بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جب تک اسرائیل فلسطین کے جبری قبضہ شدہ علاقے خاص طور پر بیت المقدس پر فلسطینی حاکمیت تسلیم نہیں کرتا اس کے ساتھ تعلقات کی بحالی ممکن نہیں ہو سکتی چاہے ساری دنیا اسرائیل کو تسلیم کیوں نہ کرے۔ 
مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین ہماری رگوں میں لہو بن کر گردش کرتا ہے۔ اب ان کا ساتھ چھوڑنا کسی طور زیب نہیں دیتا ہاں اگر اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق ان کی قبضہ شدہ علاقے واپس کر کے بیت المقدس کا مسئلہ حل کر دے تو صورتحال بدل سکتی ہے۔ بصورت دیگر اسرائیل کو تسلیم کرنا دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔ 
٭٭٭٭٭
غربت بڑھ رہی ہے۔ جلد راشن بندی سسٹم لانا پڑے گا۔ شبر زیدی 
لگ تو کچھ ایسا ہی رہا ہے کہ ہمیں جلد یا بدیر راشن بندی کرنا ہو گی۔ فرق صرف یہ ہے بھٹو دور میں آٹا اور چینی راشن ڈپو پر دستیاب ہوتی تھی۔ اس فہرست میں اب مزید کئی اشیاءکا اضافہ کرنا ہو گا۔ کیا معلوم، پٹرول اور ڈیزل کی بھی مٹی کے تیل کے ساتھ راشن بندی کرنا پڑے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کر کے اسے بھی راشن بندی کے اصولوں کے تحت لایا جا سکتا ہے۔ دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کے دنیا کی ہر نعمت سے بہرمند ہمارا وطن اس حال پر پہنچ گیا ہے کہ اب ہم خوراک میں خودکفیل ہونے کے باوجود راشن بندی پر مجبور ہیں۔ وجہ یہ نہیں کہ زمین نہیں۔ پانی نہیں سب کچھ ہے مگر بدانتظامی اور لوٹ کھسوٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے آج ہم اس بدحالی کا شکار ہیں۔ ایک کالا باغ ڈیم نہ بنانے کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے جو بن گیا ہوتا تو آج توانائی کے بحران سے ہم محفوظ ہوتے۔ آبی بحران کا خطرہ نہ ہوتا۔ حکمرانوں کی عیاشیوں نے آج ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہم راشن بندی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یہی شبر زیدی جب تبدیلی آئی ہے والی سرکار میں وزارت خزانہ سنبھالے ہوئے تھے۔ انہوں نے کیوں ایسی اصلاحات نہیں لائیں کہ عوام کے لیے آسانی کی راہ نکلتی۔ غربت کم ہوتی۔ 
شاید حکمرانوں نے ان کے ہاتھ پاﺅں باندھ رکھے تھے۔ آج انہوں نے جس تلخ حقیقت کا اظہار کیا ہے۔ اس پر کوئی دو آرا نہیں ہو سکتی۔ واقعی اب خط غربت سے نیچے زندگی کی گاڑی گھسیٹنے والوں کو کچھ نہیں تو خوراک مہیا کرنے کے لیے راشن بندی کے تحت یہ اشیاءمہیا کرنا ہوں گی ارزاں قیمتوں پر۔ آٹا، دالیں ، چینی۔ مراعات یافتہ طبقے کا مسئلہ نہیں وہ اعلیٰ درجے کی خوراک کے عادی ہیں پھیکی چائے پیتے ہیں۔ دال دلیہ ان کو ہضم نہیں ہوتا۔ اس لیے راشن ڈپوﺅں میں یہ اشیا ارزاں نرخوں پر فراہم کر کے حکومت غریبوں کو فائدہ پہنچائے ان کی دعائیں لے۔ قوم کو راشن بندی کے فوائد اور دیگر ثمرات سے آگاہ کرنے کے لیے ابھی سے حکومت میڈیا ٹیم کو متحرک کر سکتی ہے۔ پٹرول بھی مقررہ مقدار میں مہیا کیا جا سکتا ہے۔ مٹی کا تیل بھی اور گیس بھی مقررہ اوقات و مقدار میں دی جا سکتی ہے۔ آخر پہلے بھی تو لوگ ان کے بغیر زندہ تھے۔ تب نہ آلودگی تھی نہ شور بس سائیکل کی گھنٹی بجتی تھی جو کانوں کو بھلی لگتی تھی۔ 
٭٭٭٭
پاکستان میں رہائش پذیر غیر قانونی افغان مہاجرین کی تعداد 37 لاکھ ہو گئی 
اب اس ہوش ربا رپورٹ کے بعد تو ہماری وہی اسپغول تہ کچھ نہ بول والی حالت ہو گئی ہے۔ ہم کتنے بے رحم ہیں کہ دوسروں کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے بعد بھی ہر مسئلے میں ان کی طرف سے موردالزام ٹھہرائے جاتے ہیں۔ بقول غالب 
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے 
یہ جانتا اگر تولٹاتا نہ گھر کو میں 
اب واقعی ہماری یہ حالت ہو گئی ہے۔ ورنہ یہی دیکھ لیں کون ہے جو بے خانماں برباد لوگوں کی اتنی دل جوئی کرتا ہے۔ دیدہ و دل فرش راہ کرتا ہے۔ اب عالمی ادارے کی رپورٹ ہی دیکھ لیں اس وقت بھی بارہا مہاجرین کو مالی امداد دے کر واپس وطن بھیجنے کی کوشش کے باوجود پاکستان میں 37 لاکھ افغان مہاجرین ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے صرف 13 ہزار رجسٹرڈ ہیں باقی غیر قانونی مہاجرین ہیں۔ ان میں سے بھی 68 فیصد شہروں میں براجمان ہیں باقی دیہی علاقوں میں یہ چونکہ پاکستانی نہیں اس لیے وہ یہاں ہر قسم کے ناجائز دھندے غیر قانونی کام، چوری، ڈکیتی، اغوا، بھتہ خوری، قتل جیسی وارداتوں کے علاوہ دہشت گردی میں بھی ملوث ہیں۔ ان کی وجہ سے منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ نے ہمارے معاشرے کو تباہ کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں مہاجرین کو ان کے مخصوص علاقوں میں کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ یہ کام ہمارے ہاں مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ انہیں بھی اب سختی سے ہمارے شہروں و دیہات سے باہر منتقل کرنا ہو گا۔ انہیں واپس ان کے ملک بھیجنا ہو گا۔ اب تو افغانستان میں جس کے یہ نعرے لگاتے ہیں پرچم لہراتے ہیں ہمیں برا بھلا کہتے ہیں۔ ایک آزاد اسلامی ریاست قائم ہو چکی ہے اب یہ اس ملک سے جس سے نفرت کرتے ہیں واپس اپنے ملک جاتے کیوں نہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ افغان حکومت اور عالمی برادری کے تعاون سے ان کے واپس افغانستان جانے کا بندوبست کیا جائے تاکہ ہمارے سر سے ایک بوجھ تو کم ہو۔ اب ان افغانیوں کو واپس چلے جانا چاہیے۔ 
٭٭٭٭ 
الیکشن 28 جنوری کو ہوں گے۔ منظور وسان کی نئی پیشینگوئی
 حالات و واقعات تو یہی بتا رہے ہیں۔ حکومت بھی جنوری 2024 ءمیں الیکشن کرانے کا سوچ رہی ہے تو اس میں پیشین گوئی کہاں سے آ گئی۔ حکمران اور الیکشن کمشن جنوری میں الیکشن کا کئی بار عندیہ دے چکے ہیں۔ اس لیے فی الحال یہ بات وہ ملکی صورتحال دیکھ کر کہہ رہے ہیں اور عوام کی اکثریت یہ سب جانتی ہے۔ رہی بات ان کی یہ کہ نواز شریف آئیں گے۔ اس کو کسی حد تک خوش گمانی یا پیشینگوئی کہی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ ابھی تک ان کی آمد کے اعلان کے باوجود لگ یوں رہا ہے کہ شاید ان کی آمد کا بگل بجنے میں تاخیر نہ ہو جائے۔ کیونکہ اعلان کے باوجود لندن میں بیٹھک جمی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے شکوک و شبہات بڑھتے اور گھٹتے رہتے ہیں۔ اب وسان جی کے بقول وہ آ رہے ہیں تو میاں جی کو آ ہی جانا چاہیے۔ نجانے اب کیا ہو گیا ہے۔ منظور وسان کو کہ وہ پیشینگوئی کم اور حالات کا تجزیہ زیادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب بھلا یہ کوئی بات ہے کہنے والی کہ اصل مقابلہ پی پی اور (نون) لیگ کے درمیان ہو گا۔ کیا یہ جو پی ٹی آئی اور اس کے وجود سے نکلنے والے باقی دھڑے ہیں وہ یونہی میدان کھلا چھوڑ دیں گے۔ یہ وسان جی کی بھول ہے۔ یہ سیاسی گلشن یونہی آباد نہیں ہوا کہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) باد صرصر بن کر اس مشکل سے سینچے چمن کو کشت ویراں میں تبدیل کر دیں۔ کئی حلقوں حلقوں کے نتائج غیر متوقع ہو سکتے ہیں۔ رہی بات سندھ میں کلین سویپ کی تو اگر ایم کیو ایم ، جی ڈی اے اور پی ٹی آئی کا اتحاد نہ بھی بنا وہ پی پی کو آسانی سے جیتنے نہیں دیں گے اپنا حصہ بقدر جثہ ضرور وصول کریں گے۔ باقی پنجاب خیبر پی کے اور بلوچستان میں بھی باقی جماعتیں لنگوٹ کس کر میدان میں موجود ہیں اس لیے اتحادی حکومت ہی بن سکتی ہے تنہا کوئی جماعت یہ معرکہ سر نہیں کر سکتی۔ یہ پیشینگوئی نہیں قیاس آرائی ہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن