جعلی ادویات: انسانی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو سرعام لٹکایا جائے
پنجاب میں جعلی انجکشن سے بینائی متاثر ہونے کے 68 مریض سامنے آگئے۔ لاہور اور قصور کے بعد ملتان اور صادق آباد میں بھی انجکشن لگانے سے بینائی جانے کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ ڈرگ کنٹرولر آفس کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ مریض ملتان میں سامنے آئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں متاثرہ مریض سامنے آئے وہاں ملزم نوید انجکشن سپلائی کرتا تھا۔ذرائع ڈرگ کنٹرولر آفس کے مطابق اصل انجکشن بنانے والی کمپنی کے 2 ڈسٹری بیوٹرز کو بھی مزید فروخت سے روک دیاگیا ہے۔ نگران وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان نے کہا ہے کہ انجکشنز کو مارکیٹ سے اٹھا لیا گیا جبکہ 2 سپلائرز کےخلاف قانونی کارروائی کا آغازبھی ہو گیا۔ مختلف زاویوں سے معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، مریضوں کے نقصان کا ازالہ کریں گے۔ دوسری جانب ڈریپ نے بخار کی دوا پیڈولل سسپنشن کے بیچ 167کو غیر معیاری قرار دے دیا ہے۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے پیڈولل سسپنشن کا پراڈکٹ ری کال الرٹ جاری کر دیا ہے۔ پیڈولل سسپنشن جے اے ایس ایم فارما رسالپور کی تیارکردہ ہے جس کو فیڈرل ڈرگ اینالسٹ، سی ڈی ایل کراچی نے غیر معیاری قرار دیا ہے۔
اس وقت لاہور سمیت کئی شہروں میں آشوب چشم تیزی سے پھیل رہا ہے‘ ہسپتالوں‘ ڈسپنسریوں اور کلینکس پر علاج کیلئے استعمال ہونیوالے جعلی انجکشن ”ایواسٹین“ سے کئی مریض اپنی بینائی سے محروم ہو گئے۔ اب تک بینائی کے 68 کیسز سامنے آچکے ہیں جس کے بعد وزارت صحت نے فوری طور پر اس انجکشن پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ملک میں جعلی ادویات کا کاروبار عام ہے جس کے پیچھے ایک منظم مافیا سرگرم ہے۔ غیرمیعاری اور زائدالمیعاد ادویات مارکیٹ میں فروخت ہونے کا انکشاف عموماً سامنے آتا رہتا ہے۔ مگر اس مافیا کیخلاف نہ کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور نہ ایسی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کیخلاف اقدامات کئے جاتے ہیں جو اس قبیح دھندے میں مصروف ہیں۔ آشوب چشم میں استعمال ہونیوالے جعلی انجکشن نے جان بچانے والی ادویات کے میعاری ہونے میں شک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔ حکومت کو انکی بھی جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ جعلی انجکشن کیس حکومت کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے‘ جسے بنیاد بنا کر غیرمیعاری اور زائدالمیعاد ادویات فروخت کرنے اور بنانے والوں کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لا کر انہیں سرعام لٹکایا جائے جو انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔