نوابزادہ نصراللہ خاں کی رحلت کے 20 سال
یہ اگست 2003ءکے وسط کی بات ہے‘ ملائمت بھرے لہجے میں نوابزادہ صاحب نے فون کیا۔ ”کل میں نے چیدہ چیدہ دوستوں کیلئے مینگو پارٹی رکھی ہے‘ آپ کے نہ آنے کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔“ میرا اخبار نویسی سے ہٹ کر بھی نوابزدہ نصراللہ خان صاحب کے ساتھ نیاز مندی کا تعلق قائم تھا۔ انکے پاس تقریباً روزانہ 32 نکلسن روڈ پر حاضری دینا پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ذہنی بالیدگی کا باعث بھی بنتا تھا۔ وہ بطور خاص شفقت فرماتے۔ رکھ رکھاﺅ، وضعداری کا یہ عالم کہ ضعف کے باعث کبھی نقاہت بھی محسوس کر رہے ہوتے تو بھی ہر آنیوالے کا اٹھ کر خیرمقدم کرنا ضروری گردانتے۔ اس روز ہم 32۔ نکلسن روڈ پر پہنچے تو نوابزادہ صاحب نے اپنے بیڈروم کے بجائے ملحقہ ہال میں نشست کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ عبدالقادر حسن بھی انکی خصوصی دعوت پر شریک محفل تھے۔ ڈاکٹروں نے نواب صاحب کو میٹھا کھانے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا کیونکہ دل کے ساتھ ”پیس میکر“ لگنے کے بعد چکنائی اور میٹھا اس پیس میکر کی کارکردگی متاثر کر سکتا تھا۔ مگر نوابزادہ صاحب نے تو اہتمام ہی میٹھے میٹھے آموں کا کر رکھا تھا جو ”جاتی بہار کا آخری دیدار“ کے مترادف تھا کیونکہ آموں کا سیزن تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ نوابزادہ صاحب بڑے اہتمام سے آموں کی کاشیں خود کاٹ کر پیش کرتے اور ساتھ ہی یہ اصرار بھی کرتے رہے کہ یہ آم زیادہ سے زیادہ کھانے کے متقاضی ہیں۔ میں ان سے یہ گلہ نہیں سنوں گا نہ ہمیں تو کھایا ہی نہیں گیا۔ ساتھ ساتھ نوابزادہ صاحب خود بھی شوق فرماتے رہے۔ پھر حقے کی نے منہ میں ڈال کر ہلکے ہلکے کش لگانے کے بعد ”تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے“ کی صورت بنائی اور دوستوں کو یہ بتا کر خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا کہ وہ کل لندن سدھار رہے ہیں۔ غالباً محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں لندن میں مدعو کر رکھا تھا جہاں اے آر ڈی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات منیر احمد خاں نے بھی انکے جلو میں رہنا تھا۔ ادب آداب کے دائرے میں ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی چلتا رہا۔ دوستوں کا تجسس تھا کہ نوابزادہ صاحب کی پھندنے والی یونانی ٹوپی اور حقہ بھی دوران سفر اور لندن میں قیام کے دوران بدستور ان کا طرہ¿ امتیاز بنا رہے گا؟ نوابزادہ صاحب حسِ مزاح کے اظہار والے یہ تبصرے سنتے اور زیرلب مسکراتے رہے اور شعر و سخن کی آنچ لگی یہ محفل نوابزادہ صاحب کیلئے نیک تمناﺅں کے اظہار کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی۔ نوابزادہ صاحب اگلے روز لندن پدھارے اور پھر وہیں سے ان کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقاتوں کے حوالے سے خبریں آتی رہیں۔ نوابزادہ صاحب غالباً مشرف کی فوجی حکمرانی کیخلاف کسی وسیع تر اتحاد کا ایجنڈا لے کر گئے تھے مگر محترمہ سے ملاقاتوں کے بعد اس حوالے سے انہیں کسی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بارے میں میڈیا پر خبریں بھی چلنا شروع ہو گئیں۔
ڈاکٹر آئی اے کے ترین نے نوابزادہ صاحب کے دل کے پاس پیس میکر لگانے کے بعد پی آئی سی میں میری موجودگی میں انہیں یقین دلایا تھا کہ یہ پیس میکر انہیں اگلے پانچ سال تک تو بہرصورت زندہ رکھے گا‘ مگر لندن تک سفر کی تکان‘ وہاں کی گوناں گوں مصروفیات اور ان مصروفیات کے حوالے سے کسی مایوسی کے عنصر نے غالباً ”پیس میکر“ کی استعداد کو جھٹکا لگایا۔ وہ علیل پڑ گئے اور پھر ان کی علالت کی تشویشناک خبریں آنے لگیں۔ دل میں وسوسوں نے بسیرا کرنا شروع کر دیا۔ ”تقریب کچھ تو بہرصورت ملاقات چاہیے“ والی مینگو پارٹی کہیں نوابزادہ صاحب سے ہماری آخری ملاقات کی تقریب تو نہیں تھی۔ اور پھر یہی وسوسے حقیقت میں بدل گئے۔ نوابزادہ صاحب کے دل کی دھڑکن نے پیس میکر کی گرفت میں آنا چھوڑ دیا چنانچہ جس پیس میکر کو ڈاکٹر ترین نے نوابزادہ صاحب کی زندگی کے مزید پانچ سالوں کی ضمانت بنایا تھا‘ وہ چند ماہ بھی انکی زندگی کو نہ سنبھال سکا اور یہی رب کائنات کے نظامِ کائنات کی حقانیت ہے۔ 26 ستمبر 2003ءنوابزادہ صاحب کی حیاتِ فانی کا آخری دن ثابت ہوا۔ وہ کیا رخصت ہوئے کہ 32۔ نکلسن روڈ کی اسرارو رموز سے معمور سیاسی رونقوں کی بساط بھی الٹ گئی‘ رکھ رکھاﺅاور ادب آداب پر مبنی جمہوری سیاسی کلچر بھی پھیکا پڑ گیا۔ نوابزادہ منصور احمد خان‘ جن کی اپنے انداز والی سیاست کی تربیت کیلئے نوابزادہ نصراللہ خان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی‘ انکے سیاسی جانشین بنے۔ اس ناطے سے اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کے نائب صدر بھی بنا دیئے گئے مگر وہ بے نیازی کا نمونہ بن کر نوابزادہ صاحب کی چھوڑی ہوئی سیاسی میراث ہی گم کر بیٹھے۔
نوابزادہ صاحب کے انتقال کے دو ماہ بعد میں نے ماہ رمضان المبارک میں اپنے گھر افطار پارٹی کا اہتمام کرکے نوابزادہ منصور اور اے آر ڈی کے دیگر قائدین کو مدعو کیا۔ یہ نشست درحقیقت نوابزادہ منصور کو نوابزادہ مرحوم کی سیاسی جانشینی کا حق ادا کرنے کی راہ پر لگانے کی نشست تھی۔ نوابزادہ منصور بھی خاصے پرعزم دکھائی دیئے مگر :
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
جس 32۔ نکسن روڈ کو بطور سیاسی ثقافتی ورثہ قومی سطح پر محفوظ کرانے کیلئے انہیں اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے تھا‘ نوابزادہ صاحب کی پہلی برسی کے ساتھ ہی نوابزادہ منصور نے اس کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ چنانچہ آج باغ بیرون موچی گیٹ لاہور کی طرح 32۔ نکسن روڈ بھی قصہ¿ پارینہ بن کر فراموش کیا جا چکا ہے۔ اور اب تو ہمارے اس سیاسی ورثے 32 نکلسن روڈ کا کوئی وحود ہی باقی نہیں رہا کیونکہ اس جگہ پر ایک کمرشل پلازہ کھڑا ہو چکا ہے جو قومی بے حسی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ نوابزادہ منصور نے اس جمہوری پارٹی کو جو چار پارٹیوں کا انضمام کرکے نوابزادہ نصراللہ خان کی فہم و بصیرت سے معرض وجود میں لائی گئی تھی‘ انجرپنجر ہلا کر پہلے ماڈل ٹاﺅن لاہور کے ایک گھر کے کونے کھدرے میں پھینکا‘ پھر اسکی ”ہڈیاں“ اٹھا کر خان گڑھ لے گئے۔ اور لاہور میں نوابزادہ صاحب کی برسی کی تقریب کے اہتمام سے بھی گئے۔ گویا:
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
نوابزادہ منصور اپنی بے نیازی کے باعث شاید کسی بھیڑ میں گم ہونے کی ٹھان بیٹھے تھے چنانچہ گمنامی کی اس زندگی میں جمہوری پارٹی کا بھی نام و نشان نہ رہنے دیا۔ پھر 2012ءمیں کپتان کے سونامی کی شوراشوری میں نوابزادہ منصور اچانک نمودار ہوئے اور خان گڑھ میں کسی کھونٹے پر ڈالی گئی جمہوری پارٹی کی ہڈیوں کو ملتان لے جا کر اسی سونامی میں بہا دیا۔ نوابزادہ صاحب کے دیرینہ ساتھی چودھری محمد ارشد نے جمہوری پارٹی کے اس حشر پر انگڑائی لی اور جمہوری پارٹی کو بحال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسے پھر سے فعال کرنے کا عزم باندھا۔ اس پارٹی کے دیرینہ ورکر محمد حسین بھی چودھری ارشد کا دم بھرتے نظر آئے مگر انکی صلاحیتوں کو استعمال کرنے والے نوابزادہ صاحب ہی موجود نہیں تو کسی اور کو بھی انکی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خواجہ اظہار‘ حیات ہوتے تو شاید جمہوری پارٹی کی جوت جگائے رکھتے۔ میراکرم بھی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد زندگی سے بھی کنارہ کر گئے ‘ سو اب نوابزادہ صاحب کی برسی منانا بھی کسی کو یاد نہیں رہتا۔ چند سال قبل 22 ستمبر کو نوائے وقت میں ایک خبر شائع ہوئی کہ گزشتہ روز خان گڑھ میں نوابزادہ نصراللہ خان کی برسی منائی گئی۔ برادرم منیر احمد خان نے فون کرکے مجھے اس خبر کی جانب متوجہ کیا۔ آج 22 ستمبر ہے اور کل 21 ستمبر کو نوابزادہ صاحب کی برسی منائی جا چکی ہے جبکہ ان کا انتقال تو 26 ستمبر کو ہوا تھا۔ ہمارا مشترکہ تاسف ”کیا نوابزادہ مرحوم کے ورثاءانکی وفات کی تاریخ بھی بھول گئے؟“ اس پر سوائے تاسف کے اظہار کے اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ آج نوابزادہ صاحب حیات ہوتے تو عمرانی سونامی کے تھپیڑے کھاتی سیاست کو کسی کنارے پر لگانے کی کوئی نہ کوئی تدبیر ضرور نکال لیتے اور شائستگی و شرافت کی سیاست بھی ان کے دم قدم سے ضرور آباد رہتی۔ آج ان کی 20 ویں برسی کے موقع پر ان سے منسوب یادیں آنکھوں کے بے ساختہ چھلکنے کی نوبت لے آئی ہیں۔ ان یادوں کا تذکرہ شروع ہو جائے تو اوراق بھرتے جائیں‘ کتابیں بنتی جائیں مگر تذکرہ ختم ہونے کی نوبت نہ آئے۔ آج 26 ستمبر کو انکی برسی کے موقع پر انکے ورثاءکی بے نیازی کے حوالے سے غالب کی زبان میں صرف یہی عرض کر سکتا ہوں کہ:
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج پھر درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے