ڈاکٹر عمر سیف‘ آئی ٹی کا قطبی ستارہ
ٹیکنالوجی میں ترقی کے نئے باب لکھنے کیلئے ڈاکٹر عمر سیف نگران وفاقی وزیر آئی ٹی و ٹیلی کام کا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔اس سے قبل پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین کے طور پر صوبہ پنجاب کو ٹیکنالوجی سے لیس کر کے ترقی کے آسمانوں پر پہنچانے میں ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی کرشماتی شخصیت اور مہارتوں کے چرچے تو سنے تھے لیکن جب خود تحقیق کی تو اندازوں سے کہیں بڑھ کر پایا۔کون سا شعبہ ایسا ہے جہاں انہوں نے انقلاب برپا نہیں کیا۔
ڈاکٹر عمر سیف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ 1998ءمیں انھوں نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے بی ایس سی (آنرز)، 2001ء میںیونیورسٹی آف کیمبرج سے پی ایچ ڈی اور 2002ءمیں میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر عمر سیف نے 2013ءمیں ہارورڈ کینیڈی سکول آف گلوبل لیڈرشپ اینڈ پبلک پالیسی سے ایگزیکٹِو ایجوکیشن حاصل کی۔2013ءمیں ڈاکٹر عمر سیف کو انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی پنجاب کا وائس چانسلر متعین کیا گیا، جہاں انھوں نے حکومت سے منظور شدہ ایک نئی یونیورسٹی قائم کرنے کی ذمہ داری ادا کی، جس میں کمپیوٹر سائنس اور الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عمر سیف کو اپنے شان دار کاموں کے اعتراف میں لاتعداد اعزازات اور انعامات مل چکے ہیں۔ پاکستان کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں 2014ءمیں انھیں پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز ”ستارہ امتیاز“ دیا گیا۔ وہ اوّلین پاکستانی ہیں جن کا نام 2011ءمیں ”ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو“ نے دنیا کے چوٹی کے 35 نوجوان موجدوں (ٹی آر 35) میں شامل کیا۔ وہ اوّلین پاکستانی ہیں جنھیں 2011ءمیں گوگل فیکلٹی ریسرچ ایوارڈ دیا گیا۔ ورلڈ اکنامک فورم نے 2010ءمیں انھیں ”ینگ گلوبل لیڈر (وائے جی ایل)“ منتخب کیا۔ 2008ءمیں ڈاکٹر عمر سیف کو ”ایم آئی ٹی ٹیکنوویٹر ایوارڈ،“ 2008ءہی میں مارک وائزر ایوارڈ، 2008ءہی میں آئی ڈی جی سی آئی او ٹیکنالوجی پاینیئر ایوارڈ اور 2006ءمیں مائیکروسافٹ ریسرچ کی طرف سے ڈیجیٹل اِنکلوڑن ایوارڈ دیا گیا۔انکے تحقیقی مقالات کو 2013ءمیں اے سی ایم سی ایچ آئی اور 2008ءمیں آئی ای ای ای پرکوم میں بہترین تحقیقی مقالات کے ایوارڈ دیے گئے۔ ڈاکٹر عمر سیف اپنی ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے دوران ٹرینٹی کالج اوورسیز سکالر اور یونیورسٹی آف کیمبرج میں کامن ویلتھ سکالر تھے۔ ڈاکٹر عمر سیف نے 23سال کی عمر میں یونیورسٹی آف کیمبرج سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ کیمبرج سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے اوّلین پاکستانی ہیں۔
ڈاکٹر عمر سیف کی علمی‘ تحقیقی اور پیشہ ورانہ خدمات کی دی اکانومسٹ، ٹائم میگزین، فوربز، نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ سمیت معروف ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں تحسین و ستائش کی گئی ہے۔ ان کی تحقیق کو مائیکروسافٹ، گوگل، ایم آئی ٹی کے آکسیجن کنسورشیم، کیمبرج ایم آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ ، یو ایس ایڈ، ورلڈ بینک اور ایچ ای سی سے گرانٹس حاصل ہوئیں۔ ڈاکٹر عمر سیف کئی متاثر کن مطبوعات تصنیف کر چکے ہیں اور کیمبرج کامن ویلتھ ٹرسٹ کے فیلو ہیں۔قبل ازیں ڈاکٹر عمر سیف ایم آئی ٹی کمپیوٹر سائنس اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری میں ریسرچ سائنٹسٹ کی حیثیت سے چار سال کام کر چکے ہیں اور وہاں تدریس کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ وہاں انھوں نے ا±س گروپ کی قیادت کی جس نے پروجیکٹ آکسیجن کے لیے سسٹم ٹیکنالوجیز تخلیق کیں۔ یہ پانچ کروڑ ڈالر کا پروجیکٹ تھا جس کی سپانسرشپ امریکا کے محکمہ دفاع اور آئی ٹی کمپنیوں کے ایک اتحاد نے کی۔ ڈاکٹر عمر سیف نے ایم آئی ٹی میں مستقبل کی کمپیوٹنگ ٹیکنالوجیز پر یونیورسٹی آف کیمبرج اور ایم آئی ٹی کے مابین کئی ملین ڈالر مالیت کے تعاون کی انتظام کاری بھی کی، جسے کیمبرج ایم آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ نے سپانسر کیا۔ انہوں نے اپنے سٹارٹ اپ سے دل کا رشتہ ایپ متعارف کروائی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور دس لاکھ لوگ اسے ڈاﺅن لوڈ کر چکے ہیں۔
پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے ڈاکٹر عمر سیف نے پولیس، ہائی کورٹ، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں خصوصاً سمارٹ فون ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے شہریوں کے لیے خدمات بہتر بنانے کے مقصد سے کئی نئے پروگرام اور پراجیکٹ شروع کیے۔ انھوں نے گوگل کے اشتراک سے ”پنجاب اِنّویشن پالیسی“کی تیاری کے کام کی سربراہی کی اور ”پلان 9“ کا آغاز کیا، جو پاکستان کا اوّلین اور سرکاری شعبے کا سب سے بڑا سٹارٹ اَپ اِنکیوبیٹر ہے۔ان کی قیادت میں پی آئی ٹی بی نے سمارٹ فون کی بنیاد پر ایک ایسا نظام بنایا جو وبا¶ں کے بارے میں پیشگی خبردار کرتا ہے۔ اس نظام نے 2012ءمیں پنجاب میں ڈینگی کی وبا سے نبرد آزما ہونے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ پی آئی ٹی بی کی زیرِ قیادت پاکستان میں پہلی مرتبہ ماس ٹرانزٹ کا کرایہ خودکار طریقے سے وصول کرنے کا نظام بھی بنایا گیا اور لاہور کے پہلے میٹرو بس سسٹم کے آپریشنز کو خودکار بنایا گیا۔ ڈاکٹر عمر سیف کی قیادت میں پاکستان کا اوّلین ای لرننگ نظام بنایا گیا۔ یونیسکو ڈاکٹر عمر سیف کو انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ کے میدان میں پاکستان میں یونیسکو چیئرکے لئے منتخب کر چکا ہے۔ پولیو اور دیگر بیماریوں مثلاً خسرے وغیرہ کی حفاظتی ویکسی نیشن کا ڈیٹا ریکارڈ کرنے کیلئے ایک موبائل سافٹ ویئر ایپ بنائی گئی۔اس سسٹم کی کامیابی دیکھ کر خیبرپختونخوا نے بھی ڈاکٹر عمر سیف سے رابطہ کیا اور اب یہی سسٹم پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے خیبرپختونخوا کو بھی فراہم کر دیا ہے۔ بلوچستان نے رابطہ کیا تو انہیں بھی یہی سسٹم پنجاب آئی ٹی بورڈ نے بلا معاوضہ فراہم کر دیا۔
ایک شعبہ جس نے مجھے ایک دیہاتی ہونے کی حیثیت سے حیران کر دیا، وہ پٹواری سسٹم سے نجات ہے۔لینڈ ریکارڈ سنٹر ز میں جا کر آپ ٹوکن لے کر چند ہی منٹوں میں فرد حاصل کر سکتے ہیں۔ نئے سسٹم کے تحت قانون گو‘ پٹواری اور تحصیل دار وغیرہ کا کردار ختم کر دیا گیاہے۔ ڈاکٹر عمر سیف کا ایک اور بڑا کارنامہ پولیس اور امن عامہ کے شعبوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہتری لانا تھا۔ پنجاب کے تمام سات سو چودہ تھانوں میں فرنٹ ڈیسک بنائے گئے جہاں کمپیوٹرائزڈ ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ مجھے تو یہ سن کر بھی حیرانی ہوئی کہ حج کا مانیٹرنگ نظام بھی پنجاب آئی ٹی بورڈ نے وفاق کو بنا کر دیا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں سیف سٹی میں پی آئی ٹی بی نے جو کردار ادا کیا اس کے تحت دبئی پولیس بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور ڈاکٹر عمر سیف نے دبئی میں سکیورٹی نظام کے نفاذ کے لئے بھی اپنی خدمات فراہم کیں۔اسے ہم معجزہ کہیں یا انقلاب کہ پی آئی ٹی بی ملک کے چاروں صوبوں‘ وفاق‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت دنیا کے سات ممالک کو آئی ٹی کی جدید سروسز فراہم کر رہی ہے اور اس کا سہرا ڈاکٹر عمر سیف کو جاتا ہے۔ دنیا کے امیر ترین انسان بل گیٹس نے ڈاکٹر صاحب کو امریکہ بلا کر ساڑھے آٹھ گھنٹے ملاقات کی اور پاکستان میں مفادعامہ کے منصوبوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر ان کی ستائش کی۔
بطور نگران وفاقی وزیر ڈاکٹر عمر سیف پے پال اور وائز کو پاکستان لانے کیلئے متحرک ہو چکے ہیں۔اسی طرح وہ پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹس کو 10ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتے ہیں۔آئی ٹی انڈسٹری کو سو فیصد ڈالر رکھنے‘ لانے او رلے جانے میں درپیش مسائل کو بھی وہ دور کر رہے ہیں۔پاکستان میں فائیو جی متعارف کروانے‘ دس لاکھ آئی ٹی گریجوایٹس کی تربیت‘ جیسے گرانقدر اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ ان کے پاس وقت کم ہے لیکن ارادے بلند ہیں۔ پنجاب حکومت میں جب وہ متحرک تھے تو کہا جا رہا تھا لاہور بھارت کا بنگلور یعنی آئی ٹی کا مرکز بن رہا ہے‘اب جبکہ وہ وفاق میں آئی ٹی کے وزیر بن چکے ہیں تو یہ توقع کی جا رہے کہ پاکستان میں امریکہ کی طرز پر سیلیکون ویلی وجود میں ضرور آئے گی جو لاکھوں نوجوانوں کا خواب ہے۔