سنیارٹی پر ترقی نہیں دی جاسکتی، آزاد عدلیہ بنیادی اہمیت کی حامل: سپریم کورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) سپریم کورٹ نے اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی پر اہم فیصلہ جاری کر دیا۔ عدلیہ کی آزادی ملک کو آئین کے تحت چلانے کیلئے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ آئین میں ریاست کے تینوں ستونوں کے اختیارات واضح ہیں۔ سنیارٹی کا اصول سول سروس میں محکمانہ پروموشن کمیٹی کیلئے بنیادی جزو ہے۔ صرف سنیارٹی کی بنیاد پر کسی کو ترقی نہیں دی جا سکتی۔ ترقی اور اعلی تقرری کیلئے سنیارٹی کیساتھ میرٹ اور اہلیت بنیادی جزو ہے۔ سنیارٹی کا جائزہ اسی وقت لیا جاتا ہے جب میرٹ اور اہلیت پر تمام امیدوار یکساں ہوں۔ میرٹ سسٹم کے تحت ہی اہل اور قابل افراد کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے۔ ججز تقرری کیلئے قائم جوڈیشل کمشن میں تمام ارکان یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ جوڈیشل کمشن کی سفارشات کا پارلیمانی کمیٹی جائزہ نہیں لے سکتی۔ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کی مہارت جوڈیشل کمشن ممبران سے یکسر مختلف ہے۔ جوڈیشل کمشن کا کام نامزد ججز کی اہلیت اور قابلیت کا جائزہ لینا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمشن دونوں اپنی حدود میں رہ کر ہی کام کر سکتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کا فیصلہ مفروضوں اور من پسند آبزرویشنز پر مبنی نہیں ہوسکتا۔ فیصلے میں قرار دیا ہے پارلیمانی کمیٹی ججز کے نام منظور یا مسترد کر سکتی ہے کمیشن کو واپس نہیں بھیج سکتی۔ عدالتوں کو ماضی کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ فیصلے کیخلاف دائر اپیلیں خارج کر دیں۔ ججز تقرری کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی نے جوڈیشل کمیشن کو سنیارٹی اصول کے مطابق سفارشات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔ پشاور ہائی کورٹ نے پارلیمانی کمیٹی کی سفارش کالعدم قرار دی تھی جسے سپریم کورٹ نے برقرار رکھا۔
فیصلہ/ ججز تعیناتی
اسلام آ باد (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے کیس میں جسٹس اطہر من اﷲ نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔ اختلافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اﷲ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کیلئے تقرریوں میں شفافیت اور احتساب بنیادی اصول ہیں۔ تقرری کے عمل میں شفافیت و احتساب عوام کے اعتماد کو تقویت دیتا ہے۔ شفاف عمل اپنا کر عدالتی آزادی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اہل افراد کی نشاندہی کے مرحلے پر چیف جسٹس کی پیدا کردہ رکاوٹ نے کمشن کو آئینی اختیار سے روک دیا۔ کمشن میرٹ کی بنیاد پر اور اصولوں کے مطابق نامزدگیوں میں ناکام رہا ۔ آئین ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے سنگین غداری کی کارروائیوں کی بار بار توثیق کی اور آمروں کو آئین کی دفعات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی اجازت دی۔ آمرانہ حکومتوں کے تحت حکمرانی سپریم کورٹ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ صدر کے اختیارات استعمال نہ کرنے سے منتخب نمائندے اس کا شکار ہوئے۔ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عوامی نمائندوں کو اس عدالت نے تاحیات نااہل کیا۔ تین منتخب وزراءاعظم اور متعدد عوامی نمائندوں کو نااہل قرار دے دیا گیا۔
اختلافی نوٹ