چیف جسٹس کا مقدمات میں التواءنہ دینے کا عزم
چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکلاءبرادری اور سائلان کو باور کرایا ہے کہ اب سپریم کورٹ سے کسی کو مقدمات میں التواءنہیں ملے گا۔ انہیں یہ بات اب ذہن سے نکال دینی چاہیے۔ گزشتہ روز ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کیخلاف یہ پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اربوں روپے کے ٹیکس مقدمات ہم نے دبا کر رکھے ہوئے ہیں۔ ٹیکس مقدمات میں فریقین کی یہ حالت ہے کہ ڈیڑھ سال میں جواب تک جمع نہیں کرایا جا سکا۔ فاضل چیف جسٹس نے واضح کیا کہ کسی بھی کیس میں فریقین کو ایک تاریخ پر نوٹس جاری ہوگا اور اگلی سماعت میں دلائل پر فیصلہ ہوگا۔ سپریم کورٹ میں اب سے مقدمات میں التواءدینے کا تصور ختم سمجھا جائے۔
ہماری عدل گستری کے حوالے سے بالعموم یہ تاثر قائم ہو چکا ہے کہ سائلین کو حصول انصاف میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مقدمات کا سالہا سال تک فیصلہ نہیں ہو پاتا چنانچہ کسی فریق کو ملنے والا ریلیف بھی غیرمو¿ثر ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ ضرب المثل بھی زبان زدعام رہتی ہے کہ دادے کا دائر کردہ کیس پوتا بھگت رہا ہوتا ہے اور اسکی زندگی میں بھی فیصلے کی نوبت نہیں آتی۔ بادی النظر میں تو یہ عدل گستری کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے مگر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ مقدمات کے التواءمیں عدالت کی بجائے سائلان‘ دوسرے فریقین اور انکے وکلاءکا قصور ہوتا ہے جو غیرضروری طور پر تاریخیں لے کر مقدمات لٹکوائے رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے وکلاءبرادری بالخصوص ماتحت عدالتوں پرزور زبردستی بھی کرتی ہے اور وکلاءتنظیمیں بھی وکلاءبرادری کو ہی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کسی بھی کیس میں فریقین کو تاریخیں نہ دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے تو توقع کی جانی چاہیے کہ سپریم کورٹ سے ماتحت عدالتوں تک مقدمات کو زیرالتواءرکھنے کی وجوہ کی مکمل حوصلہ شکنی کی جائے گی اور کسی کو بھی التواءکی رعایت نہیں دی جائیگی۔ اس سے ہی عدل گستری کو مقدمات کے انبار سے بچایا اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔