• news

آئین کیا ہے؟

قانون سازی کی ایک تاریخ ہے۔ قانون دراصل اجتماعی اصولوں پر مشتمل ایک ایسا نظام ہوتا ہے جس کو حکومت کی جانب سے کسی معاشرے کو منظم کرنے اور اس کا نظم و نسق چلانے کے لیے نافذ کیا جاتا ہے۔ اسی پر اس معاشرے کے اجتماعی رویوں کا دارومدار ہوتا ہے۔
آئین کیا ہے؟ ریاست اور عوام کے مابین طے پانے والے معاہدے کو آئین کہا جاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی دستاویز ہے جو ایک ریاست کے مختلف شعبو ں کے لیے حقوق و فرائض کا تعین کرتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ آئین کو عوام کی رائے سے ترتیب دیا جائے۔
انسان نے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ ریاست تین بڑے دائروں میں کام کرتی ہے۔ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ۔ ریاست میں کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جن کی یہ ذمہ داری ہو کہ وہ ریاست کے مختلف شعبوں کو تصادم سے بچانے اور ان شعبوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے قانون بنائیں۔ تجربہ سے اگر یہ معلوم ہوکہ کوئی قانون عوامی فلاح و بہبود کے لیے مضر ثابت ہو رہا ہے یا عوام اس سے مطمئن نہیں اور انتہائی بے یقینی پائی جاتی ہے تو اس میں ترمیم لے آئیں یا اسے تبدیل کر دیں۔
دو مختلف شعبوں میں اگر کہیں کوئی اختلاف پیدا ہو رہا ہو یا حقوق و فرائض کے حوالے سے قانون کی خلاف ورزی ہو تو عدلیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ”اختلاف“ کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے جو آئین نے اسے تفویض کیا ہوا ہے۔ ذمہ داری سے اگر کہیں کوئی غفلت یا کوتاہی برتی گئی ہے یا قانون شکن ہوئی ہے۔ تو عدالت قانون شکنی کرنے والے کو اس کے جرم کے مطابق سزا دے اور ایکشن لے۔
آئین ۔ ریاست کے ان تینوں اہم شعبوں یا اداروں کے بارے میں بنیادی امور طے کرتا ہے۔ ایک جمہوری ریاست میں قانون سازی عوام کا حق ہے۔ جسے وہ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ پارلیمانی نظام کا نفاذ ہے۔ اس لیے قانون سازی کا آئینی حق اور اختیار پارلیمان کے پاس ہے۔
آئین یا دستور کسی حکومت کے لیے قواعد و ضوابط اور اصولوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو کسی سیاسی وجود کے اختیارات کو متعین کرتا ہے۔ بھارتی آئین کسی ملک کا لکھا ہوا سب سے بڑا آئین ہے جس کے انگریزی ترجمے میں 117396 الفاظ ہیں جبکہ امریکی دستور دنیا کے کسی ملک کا سب سے چھوٹا دستور ہے۔ فرانس، کینیڈا اور برطانیہ کے بھی اپنے اپنے دستور ہیں جو وہاں کی معاشرتی زندگی کے تناظر میں بنائے گئے ہیں۔جب پاکستان کا دستور بنا تو اسے بنانے میں آٹھ ماہ صرف ہوئے۔ پاکستان کا یہ پہلا آئین تھا جسے پارلیمان کی آئینی کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔ اس کمیٹی میں ملک کے نامور قانون دان، دانشور اور اہم سیاسی زعماءشامل تھے۔ اس آئینی کمیٹی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی جس نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے بعد اس آئین کو تشکیل دیا جو 73ءا آئین کہلایا۔ جس کی بعدازاں پارلیمان سے بھی متفقہ منظوری لی گئی۔ 1973ءمیں یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔اس سے قبل پاکستان کی دوسری دستور ساز اسمبلی نے 29مئی 1956ءکو پہلا آئین نافذ کیا۔ یہ ون یونٹ کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ جس میں مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور ریاستوں کو ختم کر کے ایک صوبہ بنایا گیا تھا اور اسکی کل 46فیصد آبادی کی نمائندگی، صوبہ مشرقی پاکستان کے برابر کر دی گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے اس غیر منصفانہ اور جابرانہ آئین کا بائیکاٹ کیا لیکن طاقت، دھاندلی، دھونس اور ہارس ٹریڈنگ سے قائم ہونے والی اس کٹھ پتلی دستور ساز اسمبلی سے اس متنازعہ آئین کو منظور کرا لیا گیا۔
1956ءکا آئین صدارتی طرز کا تھا۔ جس میں گورنر جنرل کے اختیارات صدر سکندر مرزا کو مل گئے۔ جس نے ان اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے چار وزارئے اعظم برطرف کئے۔ یہ غیر متفقہ آئین، محض ڈھائی سال بعد سکندر مرزا ہی نے منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاءمسلط کر دیا۔مذکورہ آئین 23مارچ 1956ءکو نافذ ہوا۔ اور اسی کی یاد میں 23مارچ کا دن ”یوم جمہوریہ“ کے طور پر منانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1958ءمیں مارشل لاءلگنے کے بعد یہ دن ”یوم پاکستان“ کی شکل اختیار کر گیا۔ حالانکہ اس دن کا 1940ءکی ”قرار داد لاہور“ سے کوئی تعلق نہیں۔
آئین پاکستان کی اہم خصوصیات کا ذکر کریں تو اس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہو گا۔ وزیراعظم حکومت کا سربراہ ہو گا اور اسے اکثریتی جماعت منتخب کرے گی۔ چونکہ اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہے، اس لیے صدر اور وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ آئینی طور پر پاکستان ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کہلائے گا۔ اس کی قومی زبان اردو ہو گی۔ عوام کو مواقع دئیے جائیں گے کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بسر کریں۔ عدلیہ آزاد ہو گی جبکہ َقرآن پاک کی اغلاط سے پاک طباعت کے لیے خصوصی انتظامات کئے جائیں گے۔ عربی زبان کو فروغ دیا جائے گا۔ طلباءو طالبات کے لیے آٹھویں جماعت تک عربی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی۔
آئین کی رو سے مسلمان سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کو ایک مانے، آسمانی کتابوں پر ایمان لائے۔ فرشتوں، یومِ آخرت اور انبیائے کرام پر ایمان رکھے اور نبی کریم کو اللہ کا آخری نبی تسلیم کرے۔ جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو گا وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔
1973ءکا متفقہ آئین ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بنا۔ درحقیقت آئین ان قواعد کی تعریف کرتا ہے جن پر ریاست کی بنیاد ہوتی ہے۔ بلکہ اس طریق کار کی بھی تعریف بیان کرتا ہے جن پر ریاست کی بنیاد ہوتی ہے۔سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاستی امور یا حکومت کو چلانے کے قوانین کو آئین یا دستور کہا جاتا ہے۔
آئین تحریری یا غیر تحریری شکل میں ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ امریکی آئین تحریری شکل میں ہے جبکہ برطانوی آئین کو غیر تحریری تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستانی آئین تحریر ی شکل میں ہے اس کے آرٹیکلز کی تعداد 288ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 2کے تحت ریاست پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے چونکہ اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اقتدار و اختیار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا وہ ایک مقدس امانت ہے۔ آئین کے آرٹیکل 41کے تحت صدر کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 91کے تحت وزیر اعظم پاکستان کا بھی مسلمان ہونا ضروری ہے۔آرٹیکل 227کے مطابق تمام قوانین کو قرآن و سنت میں دئیے گئے احکامات کے مطابق بنایا جائے گا اور کوئی اس سے روگردانی نہیں کرے گا۔ آئین کے آرٹیکل 251کے تحت پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی۔
مگر ان قوانین پر کس حد تک عمل ہوتا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ قوانین کے نفاذ کے باوجود ان پر عمل نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ عدالتی حکم بھی نہیں مانے جاتے جو قانون و آئین کی روشنی میں صادر کئے جاتے ہیں۔ جو قومیں اپنے قوانین پر عمل نہیں کرتیں، بہت پیچھے رہ جاتی ہیں بدقسمتی سے قوانین پر عملدرآمد ہماری ترجیح نہیں۔
٭....٭....٭

سعد اختر

سعد اختر

ای پیپر-دی نیشن