عوامی سیاست
ویسے تو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے میدان عمل میں ہیں۔ تمام سیاستدانوں نے اپنی زندگیاں عوام کے لیے وقف کر رکھی ہیں ان کے دل میں ہر وقت عوام کا درد اٹھتا رہتا ہے بلکہ کئی ایک تو عوام کی حالت زار دیکھ دیکھ کر اپنے آپ کو روگ لگوا بیٹھے ہیں اور روگ بھی ایسا جس کا علاج پاکستان میں ممکن ہی نہیں۔ عوام کا درد لیے بیرون ملک علاج کروانا ان کی مجبوری بن جاتا ہے۔ کئی بیچارے سوچ سوچ کر ڈپریشن کا شکار ہو چکے ہیں ان کو راتوں کو نیند نہیں آتی اس حوالے سے ان کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن نہ جانے کیوں یہ تمام خدائی خدمت گار عملی طور پر کچھ اور ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے سارے سیاسی جوڑ توڑ ان کی ڈیلیں ان کی ساری جدوجہد اپنے کیسوں کے خاتمے تک مرکوز رہتی ہے۔ ہر کوئی اقتدار کے حصول کے لیے ہر سطح تک گر جانے میں فخر محسوس کرتا ہے یہ سب لوگ اقتدار کے لیے مرے جا رہے ہوتے ہیں اور اقتدار ملتے ہی ان کی گردنوں میں سریے آ جاتے ہیں ان کے اندر طاقت کی بجلیاں دوڑنے لگتی ہیں اقتدار میں آنے سے پہلے ان میں عوام کا بخار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو ایسے نوچتے ہیں جیسے گدھیں نوچتی ہیں۔ عوام کی ہمدردی کا دم بھرنے والے عوام کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں۔
ذرا غور فرمائیں آج پاکستان کی جو حالت ہے جہاں عام آدمی کا جینا مشکل ہو چکا ہے، جہاں عام آدمی اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا پا رہا، اس کا ذمہ دار یہ سارے حکمران ہیں جو کسی نہ کسی طرح اقتدار میں رہے ہیں۔ تمام کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو خوفناک حقیقتیں عیاں ہوتی ہیں اقتدار میں رہنے والا ہر شخص امیر سے امیر تر ہو چکا اور عوام غریب تر۔ تمام تر وسائل انھوں نے اپنے دن پھیرنے پر صرف کر دیے ہیں اور غریب آدمی کا ہر آنے والا دن جہنم بنا دیا گیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عوامی خدمت کا دعوی ہر کوئی کرتا ہے لیکن خدمت اپنی ہوتی ہے خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آج جب لوگوں کا سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔ ان مشکل ترین حالات میں ذرا پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر نظر دوڑائیں اور عوامی خدمت سے سرشار لیڈر شپ کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ کون کیا کر رہا ہے۔
حال ہی میں تازہ تازہ اقتدار سے فارغ ہوئے والی سب سے بڑی بینفشری مسلم لیگ ن کا سارا فوکس میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر، ان کے استقبال پر ہے۔ مینار پاکستان پر طاقت کے اظہار کے لیے دن رات ایک کیے جا رہے ہیں۔ میاں صاحب کو کس طرح جیل جانے سے بچانا ہے اور کس طرح آئیندہ کے اقتدار کے لیے قابل قبول بنوانا ہے۔ مسلم لیگ ن کی ساری سیاست کا مرکز ومحور یہ نقطہ ہے۔ پیپلزپارٹی کی بھی ساری سیاست آئیندہ کے اقتدار کے لیے جوڑ توڑ تک محدود ہے۔ لیڈر شپ نے کیسز سے کیسے بچنا ہے مال ہضم کیسے کرنا ہے۔ اس سے آگے سوچنا گناہ ہے۔ تحریک انصاف کو صرف اور صرف اپنے چیرمین کی رہائی کے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ مولانا فضل الرحمن 73 ءکے آئین کی روشنی میں خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی پلاننگ میں مصروف ہیں۔ کسی خدائی خدمت گار کو یہ احساس ہے کہ کتنے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ کتنے لوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھوا رہے ہیں۔ کتنے لوگ اپنے لخت جگروں کو چند روپوں کی خاطر گھروں میں کام کرنے کے لیے امیروں کے حوالے کر رہے ہیں۔ عوامی مسائل کے حل کی منصوبہ بندی کرنا تو دور کی بات ہے، بے حسی کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ اس پر بات کرنے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں۔ لیکن اس خودغرضی کے دور میں ہمیں ایک جماعت ایسی بھی نظر آتی ہے جو بظاہر تو الیکٹ ایبلز کی فہرست میں ابھی بہت پیچھے ہے لیکن وہ عوام کے دکھوں کی بات ضرور کر رہی ہے۔
جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے جو اس خوفناک مہنگائی پر احتجاج کرتی نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنی سیاست کو عوامی خدمت سے نتھی کر دیا ہے۔ جہاں مختلف شعبوں میں خدمت خلق کے کام ہو رہے ہیں وہاں ملک بھر میں مہنگائی بے روزگاری کے خلاف امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق کی قیادت میں بھرپور احتجاج ہو رہا ہے۔ اب تو تاجر تنظیمیں بھی ان کا ساتھ دیتی نظر آتی ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے تو کمال کر دیا انھوں نے اپنی سیاست کا مرکز ومحور کراچی کے مسائل کو بنا کر کراچی کے عوام کا دل جیت لیا ہے۔ کراچی میں امن و امان کا مسئلہ ہو، وہاں صفائی کا معاملہ ہو، پینے کے پانی کی عدم دستیابی ہو۔ وہ ہر معاملے پر آواز اٹھاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی پاپولر جماعت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اللہ کرے ہماری سیاست کی ڈگر تبدیل ہو اور جماعت اسلامی نے جو عوامی خدمت کی سیاست کا ماڈل متعارف کروایا ہے دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس کی تقلید میں سامنے آئیں۔