نگران وزیراعظم اور وزراءخود کو متنازعہ نہ بنائیں
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ سابق وزراءاعظم میاں نوازشریف اور عمران خان کے معاملات پر قانون کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا۔ میاں نوازشریف کی ملک واپسی پر اور عمران خان کے انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کے معاملہ میں قانونی تقاضا پورا کیا جائے گا۔گزشتہ روز لندن میں ایک انٹرویو اور پریس کانفرنس کے دوران اظہارخیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوں گے یا نہیں‘ اس بارے میں الیکشن کمشن ہی فیصلہ کرے گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی پاکستان واپسی پر نگران حکومت قانون کے مطابق اقدامات کرے گی اور ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ نوازشریف کو دی گئی عدالتی اجازت کی حیثیت کیا ہے جبکہ اس معاملے میں وزرات قانون سے بھی رائے لی جائے گی۔ایک اور سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ بیلٹ پیپر پر تحریک انصاف کے نہ ہونے پر احتجاج ہوا تو بھی الیکشن جائز اور قانونی ہوگا۔ ہم تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت ہر سیاسی جماعت کے سیاسی حقوق کاتحفظ یقینی بنائیں گے۔ پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے‘ تاہم پرتشدد احتجاج کسی صورت قبول نہیں۔ اگر9 مئی کے پرتشدد واقعات میں میں بھی ملوث ہوتا تو اپنے خلاف سزا کا متمنی ہوتا۔ ہم قطاً یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ ہم کسی سیاسی جماعت یا گروہ کے خلاف ہیں۔ میرے دورہ لندن کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے کیونکہ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی رابطہ ہے نہ کسی سے ملاقات ہوئی ہے۔ ان کے بقول کسی سے کوئی ڈیل یا ڈھیل نہیں ہے۔ دراصل میڈیا اپنی بھوک مٹانے کیلئے ایسی خبریں چلاتا ہے۔
نگران سیٹ کے بارے میں آئین اور قانون میں یقینا کوئی ابہام نہیں۔ اس کی تشکیل محض عام انتخابات کے انتظامات کیلئے الیکشن کمشن کی معاونت کرنے کی خاطر عمل میں آتی ہے اور اس کی مخصوص آئینی مدت بھی متعین ہوتی ہے۔اسے ہر دو آئینی تقاضوں کے تحت 60 یا 90 دن میں انتخابات کے انعقاد اور منتخب حکومت کو انتقال اقتدار کا فریضہ سرانجام دینا اور اس کے بعد گھر واپس چلے جانا ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر نگران سیٹ اپ کو امور حکومت و مملکت میں کوئی مستقل قومی پالیسی وضع کرنے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا جبکہ نگران سیٹ اپ کو ہرصورت اپنی غیرجانبداری برقرار رکھنا ہوتی ہے تاکہ انتخابات میں حصہ لینے والی کسی سیاسی جماعت کیلئے اس کا کردار پر کسی اعتراض کی گنجائش نہ نکلے۔ اگرچہ سبکدوش ہونے والی اسمبلی اور پارلیمنٹ کی جانب سے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے بعد مالی اور اقتصادی معاملات میں پالیسی وضع کرنے کا نگران وزیراعظم کو اختیار دیا گیا ہے جس کا مقصد بادی النظر اتحادیوں کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف ساتھ کئے گئے عبوری معاہدے کی پاسداری اور اس کی شرائط پر عملدآرمد یقینی بنانے کا تھا۔ تاہم نگران سیٹ اپ کی آئین میں متعینہ مدت برقرار رکھی گئی جوقومی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کے باعث تین ماہ کی متعینہ آئینی مدت ہے۔ تاہم الیکشن کمشن کے پاس یہ آئینی اختیار موجود ہے کہ انتخابات سے پہلے نئی مردم شماری کا مرحلہ مکمل ہو جائے اور مشترکہ مفادات کونسل اس کی توثیق کر دے تو وہ انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کرے گا جس کا آئین کی دفعہ 151 کی ذیلی دفعات کے تحت اسےپابند کیا گیا ہے۔الیکشن کمشن کو نئی حلقہ بندیوں اور ان کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ کرنے کیلئے کم از کم تین ماہ درکار ہوتے ہیں جس کے بعد انتخابات کا عمل شروع کرنا الیکشن کمشن کیلئے بھی لازمی آئینی تقاضا ہے۔ الیکشن کمشن نے اسی تناظر میں نومبر کے آخر تک حلقہ بندیوں پر پراسیس مکمل کرکے آئندہ سال جنوری کے آخری ہفتے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ یہ آئینی تقاضا پورا کرنے کیلئے چونکہ الیکشن کمشن کو حکومتی ریاستی اداروں کی معاونت درکار ہوتی ہے اس لئے انتخابات کے انعقاد تک نگران سیٹ اپ برقرار رکھنا بھی قانونی تقاضا بن جاتا ہے‘ تاہم اس مدت کے دوران نگران حکومت نے خود کوالیکشن کمشن کی معاونت کی ذمہ داریوں تک ہی محدود رکھنا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ نگران سیٹ اپ کے بارے میں شکوک و شبہادت پیدا ہونے کی گنجائش نگران وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کی جانب سے دیئے جانے والے مبہم بیانات کی وجہ سے ہی نکلی ہے اور آج تحریک انصاف ہی نہیں‘ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی نگران سیٹ اپ کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائے اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ہم انہی سطور میں پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت‘ اس کے امیدواروں یا کسی فرد واحد کو انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اہل یا نااہل قرار دینے کا فیصلہ نگران حکومت نے نہیں بلکہ آئین و قانون کے تحت الیکشن کمشن‘ متعلقہ عدالت اور دوسرے مجاز عدالتی فورموں نے کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے نگران وزیراعظم یا ان کی کابینہ کے ارکان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ کون سی جماعت یا فرد انتخابات میں حصہ لینے کا اہل ہے اور کس پر کوئی قانونی پابندی عائد ہو سکتی ہے۔میڈیا کو اپنی بھوک مٹانے کیلئے خبریں چلانے کا موردالزام ٹھہراتے وقت نگران وزیراعظم کو اس امر کا بخوبی ادراک ہونا چاہئے کہ وہ اپنے کسی بیان یا پریس کانفرنس میں کسی جماعت اور اس کی قیادت کا نام لیکر ان کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اہل یا نااہل ہونے کے بارےمیں بات کریں گے تو اس سے لازمی طورپر ان کے حوالے سے جانبداری کا تاثر پیدا ہوگا۔ اگر نگران وزیراعظم کے گزشتہ روز کے بیان کا بھی جائزہ لیا جائے جس میں انہوں نے چاہے قانونی تقاضے کا حوالہ دیکر ہی بات کی کہ تحریک انصاف بیلٹ پیپر پر موجود نہیں ہوگی تو بھی الیکشن جائز ہوگا، تو ان کی یہ بات بادی النظر میں متعلقہ پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کواشتعال دلانے والی ہی ہے۔
کچھ ایسا ہی طرز عمل ان کی کابینہ کے ارکان کاٰ بھی نظر آرہا ہے۔ چنانچہ نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کے اس بیان پر مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں اور کارکنوں کا اشتعال میں آنا بھی فطری امر تھا کہ نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے تو فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا کہ انہوں نے جیل جانا ہے یا انتخابات میں حصہ لینا ہے۔ جب ان معاملات کے فیصلے کیلئے مجاز قانونی اور آئینی فورم موجود ہیں تو نگران حکومت کی جانب سے اس پر کسی حاشیہ آرائی کے بجائے آئین و قانون کی عملداری سے برآمد ہونے والے نتائج کا انتظار کرنا چاہئے۔ اگر نگران وزیراعظم اور وزرائ خود ان معاملات پر بیان بازی کا شوق پورا کرتے نظر آئیں گے تو متعلقین کو بھی نگران سیٹ اپ کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ ایکسرسائز جمہوریت کی پاسداری و عملداری کیلئے ہرگز سودمند نہیں ہو سکتی۔