نگران حکومتیں غیر جانبداررہیں
ہمارے ملک میں کوئی بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معاملات کو مستقبل میں درست سمت لے جانے کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔ پانامہ لیکس آنے سے پہلے تک ملک اپنی ڈگر پر چل رہا تھا اور اس قدر مہنگائی یا بے روزگاری نہیں تھی اور کاروبار بھی ٹھیک تھے۔ پانامہ لیکس کے بعد میاں نوازشریف اورفیملی کا ٹرائل ہوا جس کے بعد ملک میں اقتدار کی تبدیلی ہوئی او ر2018ءکے الیکشن میں تحریک انصاف نے مخلوط حکومت بنائی۔ ان کے دعو¶ں کے برعکس ملک میں مہنگائی و بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا اور حالات یہ تھے کہ اگر عمران خان اپنی حکومت آئینی مدت تک پوری کرتے تو الیکشن مہم میں لوگ تحریک انصاف کے امیدواروں کو جوتے مارتے لیکن انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا اور پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت قائم ہوئی جس نے 16ماہ تک ملک میں حکمرانی کی۔مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات اس حکومت کو ورثے میں ملے۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کو اولین مقصد رکھ کر فیصلے کئے جس کے باعث مہنگائی ہوئی لیکن اس کے دور رس نتائج میں ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا۔ البتہ پی ڈی ایم کی حکومت نے جرائم میں ملوث مافیاز کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔
میاں نوازشریف 3بار ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں اور ہر بار وہ سپہ سالار کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے اقتدار سے الگ ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ایک بار ایسا کرکے اقتدار سے محرومی کے بعد آئندہ کے لئے محتاط حکمت عملی سے سیاست کرتے لیکن تین بار ایسا ہی ہوا۔چلیں اب آپ 3بار اقتدار سے بے دخلی کے بعد طرز عمل میں تبدیلی لے آتے لیکن اب تازہ ترین بیان میں میاں نوازشریف نے ایک بار پھر جنرل قمر جاوید باجوہ‘ جنرل فیض حمید اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔ شاید وہ ایسا بیان عوام کی ہمدردی کے حصول کے لئے دے رہے ہیں لیکن میرے خیال سے اب ایسے بیانات سے انہیں صرف نقصان ہی ہوگا کیونکہ اس بات کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ عمران خان نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد جس طرح کی سیاست کی ہے اور جس کسی کے خلاف بیان بازی کی ہے ‘ اس سے عوامی سطح پر ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اقتدار میں ہوتے ہوئے ان کی عوامی حمایت جو تقریباً خاتمے کے قریب تھی‘ اب اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ فوج مخالف بیان دینے سے ن لیگ کو کوئی فائدہ ملتا نظر نہیں آرہا بلکہ ایسے بیانات سے انہیں نقصان ہی ہوگا۔بہتر یہی ہے کہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔
ن لیگ اور اتحادیوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کرکے 16ماہ مخلوط حکومت کی لیکن عوام کو کوئی ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے اور یہی کہاں گیا کہ قوم صبر کرے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے تمام ضروری مالی اقدامات و فیصلے کئے جارہے ہیں۔ مخلوط حکومت میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اسی طرح بجلی مہنگی ہوتی چلی گئی۔ عام گھریلو استعمال کی ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ عوام کی پریشانی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ جرائم پیشہ مافیاز کے خلاف کوئی موثر اقدامات نہیں کئے گئے۔ جس سے ن لیگ اور اتحادیوں کی مقبولیت کو دھچکا پہنچا جبکہ اسی دورانیہ کی تحریک انصاف کی سیاست ایسی تھی کہ عوام میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
گزشتہ ایک ماہ اور کچھ دنوں سے نگران حکومتیں قائم ہوئی ہیں اور نگران حکومتوں کے ایسے زبردست اقدامات ہیں کہ اس ایک ماہ اور چند دن کا اگر پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت سے موازنہ کیا جائے تو نگران حکومتیں کئی پہلو¶ں سے سیاستدانوں کی مخلوط حکومت سے بہتر ہیں۔ ایک ماہ اور چند دن میں نگران حکومتوں نے ایسی زبردست طریقے سے حکومت کی کہ ڈالر کی قدر میں مسلسل انقلابی کمی آرہی ہے اور روپے کی قدر میں اضافے سے مہنگائی میں کمی لانا ممکن ہوسکے گا۔ اسی طرح بجلی چوروں اور چینی چوروں کے خلاف کریک ڈا¶ن بھی سب کے سامنے ہے۔ نگران حکومتوں نے تمام غیر قانونی کاروبار کی بندش‘ اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈا¶ن اور جرائم پیشہ عناصر اور منشیات کی سپلائی کے خلاف بہترین کارروائیاں عمل میں لائی ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ نگران حکومت کے فیصلوں سے ملک میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اتنے تجربہ کار سیاستدانوں کی مخلوط حکومت یہ سب کچھ کیوں نہیں کرسکی؟ پھر ایسے ایسے بیانات دیئے جارہے ہیں کہ جس سے عوام کو بے وقوف سمجھا جارہا ہے۔نگران حکومتوں کو محتاط بیان دینے چاہئیں اور کہیں بھی غیرجانبداری کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ غیرجانبداری ہی ان کے نگران حکومت میں آنے کا اولین مقصد تھا۔
یہ بات بھی تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ چینی چور‘ بجلی چور‘ اسمگلر‘ منشیات مافیا‘ ڈالرکی قیمتوں میں اضافے سمیت بڑے بڑے جرائم صرف اور صرف بااثر سیاسی سرپرستی میں ہی ممکن ہیں اور یہ تمام کام عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ سیاستدان بھی موجودہ نظام میں مجبور ہیں کہ سیاست پر کروڑوں روپے خرچ کرکے اقتدار میں آتے ہیں اور پھر مختلف طریقوں سے اربوں روپے کماتے ہیں۔ سیاست برائے خدمت نہیں ہے بلکہ سیاست ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اسی لئے ملک میں تمام بڑے جرائم کی پشت پر سیاسی لوگوں کی سرپرستی ہی نظر آئے گی۔عوام تو سیاستدانوں کی حکومتوں کے بجائے موجودہ نگران حکومت سے خوش ہیں کیونکہ اس حکومت نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بہترین اقدامات کا آغاز کر رکھا ہے۔
بہتر تو یہ ہوگا کہ ملک کو لوٹنے والے بڑے بڑے کرپٹ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس پر ہاتھ ڈالا جائے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے۔ چھوٹے جرائم پیشہ عناصر خود ہی جرائم سے باز آجائیں گے۔ اگر اب بھی لوٹ مار کرنے والے بااثر سیاستدانوں اور بیورو کریٹس سمیت کسی بھی ادارے میں اپنے منصب سے فائدہ اٹھاکر ناجائز دولت جمع کرنے والوں سے بلاامتیاز لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لی جاتی تو ایک بار پھر وہ سیاست کے ذریعے اقتدار میں آئیں گے اور دوبارہ سے لوٹ مار کریں گے۔ اسی لئے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی ہر صورت واپسی اور معیشت کی بہتری ہی وقت کی ضرورت ہے۔ لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی سے ہی ملک بہتر ہوگا اور لوٹ مار کرنے والوں کا تعلق چاہے کسی بھی جماعت یا ادارے سے رہا ہو‘ بلاامتیاز کارروائی بہت ضروری ہے۔
اب ملک جب ایک اچھے انداز میں چلایا جارہا ہے اور مثبت اعشاریئے نظر آنا شروع ہوئے ہیں تو اس میں مزید بہتری ہی آنی چاہئے اور کسی بھی طور پر غلط فیصلے یا طرز عمل نہیں اپنایا جانا چاہئے۔ اس لئے ضروری ہے کہ نگران حکومتیں ہر صورت غیر جانبدار‘ منصفانہ الیکشن منعقد کرائیں اور ایسا الیکشن منعقد کرایا جائے جس پر کسی بھی پہلو سے کوئی اعتراض نہ کرسکے اور اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار ملنا چاہئے۔ اگر خدانخواستہ الیکشن کے انعقاد میں کسی قسم کی جانبداری کا پہلو نظر آیا اور اس کے خلاف ماضی کی طرح کی تحریک کا آغاز ہوا تو سیاسی عدم استحکام نے ہی تو پہلے بھی ملک کو یہاں تک پہنچایا تھا اور ایک بار پھر ایسا ہونے سے ملک مزید مشکلات کی جانب جائے گا۔ اسی لئے فری اور فیئر الیکشن ہی ملک کے استحکام اور ترقی کا ضامن نظر آرہا ہے۔ سیاستدان مل بیٹھ کر ملک کے استحکام کی خاطر فیئر الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائیں اور سیاسی استحکام وقت کی ضرورت ہے۔ اگر اب بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا گیا تو پھر ملک سنبھالنے کے لئے مجبوراً ملکی سلامتی و دفاع کے اداروں کو براہ راست سامنے آنا ہوگا۔