• news

بلوچستان میں عید میلادالنبی کے روز دہشت گردی کی پے در پے وارداتیں

سفاک دہشت گردوں نے عید میلادالنبی کے روز خودکش حملوں اور دہشت گردی کی تین مختلف وارداتوں میں بلوچستان کی سرزمین پر انسانی خون کی ندیاں بہا دیں اور اس پوری ارض وطن کو لرزا کر رکھ دیا۔ دہشت گردی کی پہلی واردات بلوچستان کے علاقے مستونگ میں مدینہ مسجد کے باہر ہوئی جہاں سے عید میلاالنبی کے جلوس کا آغاز ہوا تو خودکش حملہ آور بھی اس جلوس میں شامل ہو گیا جسے ڈی ایس پی نواز گشکوری نے روکنے کی کوشش کی تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس خودکش حملے میں جلوس میں شریک 52 افراد شہید اور 60 سے زائد زخمی ہوئے۔ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ قرب و جوار کی تمام عمارتیں لرز اٹھیں اور لوگوں کے کان بند ہو گئے جبکہ جائے وقوعہ پر انسانی لاشوں کے ڈھیر اور زخمیوں کو تڑپتا دیکھ کر متعدد افراد بے ہوش ہو گئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق خودکش حملہ آور نے اپنے جسم پر چھ سے آٹھ کلو وزنی دھاکہ خیز مواد باندھ رکھا تھا۔ آئی جی بلوچستان عبدالخالق شیخ کے بقول مستونگ میں مشکوک افراد کی سرگرمیوں کی پہلے سے اطلاعات موجود تھیں جن کی نقل و حرکت کی مانیٹرنگ کی جا رہی تھی۔ خودکش حملہ آور نے چونکہ جلوس کے اندر گھس کر خود کو دھماکے سے اڑایا اس لئے زیادہ لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ شہر میں ایمبولینس کم ہونے کے باعث زیادہ تر زخمیوں کو رکشاﺅں اور دوسری ٹرانسپورٹ کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ دھماکے میں شہید ہونیوالے ڈی ایس پی نواز گشکوری کی نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد اسکی میت تدفین کیلئے اسکے آبائی علاقے میں بھجوادی گئی۔
عید میلادالنبی کے موقع پر ہی دہشت گردی کی دوسری واردات تحصیل ہنگو کے دوآبہ تھانے کی مسجد میں ہوئی جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت سات افراد شہید اور 12 زخمی ہوئے۔ اس واردات میں دہشت گردوں نے نماز جمعہ کے وقت بے دریغ فائرنگ کرتے ہوئے مسجد پر حملہ کیا۔ ایک حملہ آور نے مسجد کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں نے اسے برسٹ مار کر ہلاک کر دیا تاہم اس کا ساتھی دہشت گرد مسجد کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا جس نے نمازیوں کے پاس پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس دھماکے کے باعث مسجد کی چھت بھی گر گئی اور کئی افراد ملبے تلے دب گئے۔ سی ٹی ڈی حکام کے مطابق حملہ آور گاڑیوں میں سوار ہو کر آئے تھے۔ اسی طرح جمعة المبارک کو دہشت گردی کی تیسری واردات ژوب میں ہوئی جہاں دہشت گردوں نے افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی تو وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں نے انکی مزاحمت کی اور انکی پاکستان داخل ہونے کی کوشش ناکام بنا دی۔ اس موقع پر فائرنگ کے تبادلے میں تین دہشت گرد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ چار سکیورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ دہشت گردی کی ان پے در پے وارداتوں میں بے گناہ شہریوں کے شہید ہونے پر بلوچستان حکومت نے صوبہ بھر میں تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا جبکہ بلوچستان بار کونسل کی اپیل پر وکلاءنے ہفتے کے روز عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علی مردان کے بقول بلوچستان میں پہلے سے کوئی تھریٹ نہیں تھا تاہم سکیورٹی فورسز ہمہ وقت الرٹ تھیں۔ 
افغانستان سے امریکی نیٹو فورسز کی واپسی اور طالبان کے واپس اقتدارمیں آنے کے بعد افغان سرزمین جس دیدہ دلیری کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہونا شروع ہوئی ہے جس کیلئے دہشت گردوں کو بادی النظر میں کابل کی طالبان حکومت کی سرپرستی اور کمک حاصل ہے‘ بلوچستان میں مسلمانوں کے مقدس روز دہشت گردی کی پے درپے وارداتیں بھی یقیناً اسی کا شاخسانہ ہے۔ بدقسمتی سے امریکی نائن الیون کے سانحہ کے بعد سے ہی پاکستان کو افغانستان کی جانب سے ملکی سلامتی کیلئے خطرات لاحق ہونا شروع ہو گئے تھے۔ امریکہ نے اپنے اتحادی نیٹو ممالک کے ذریعے افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اپنے مفادات کی جنگ کا آغاز کیا جس میں پاکستان کے کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کو دھمکی دیکر پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا گیا اور اسکی لاجسٹک سپورٹ کی بدولت نیٹو فورسز زمینی اور فضائی حملے کرکے افغانستان کا تورابورا بناتی رہیں۔ اسی کے ردعمل میں طالبان نے نہ صرف افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو کر یہاں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا بلکہ پاکستان کے اندر بھی تحریک طالبان قائم کرکے یہاں محفوظ ٹھکانے بنالئے۔ چنانچہ پاکستان کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی ہونے کا خمیازہ دس ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں اور افسران سمیت وطن عزیز کے 80 ہزار شہریوں کی جانوں کے نذرانے اور قومی معیشت کو ہونیوالے ارب ہا ڈالر کے نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑا جبکہ ان قربانیوں کے باوجود امریکہ ہمیں بے اعتبارا سمجھ کر ہماری سرزمین پر ڈرون حملوں کا بھی مرتکب ہوتا رہا۔ 
اس جنگ کا باقاعدہ سلسلہ پندرہ برس تک جاری رہا اور کچھ نتیجہ برآمد نہ ہوا تو امریکہ نے افغانستان سے واپسی کا فیصلہ کیا جس کیلئے اسے محفوظ واپسی کے راستے درکار تھے۔ اس کیلئے بھی پاکستان اس کا معاون بنا اور امریکہ اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کی راہ ہموار کی۔ اسکے نتیجہ میں امریکی نیٹو فورسز کی افغانستان سے واپسی اور طالبان کیلئے کابل کے اقتدار کے دوبارہ حصول کی راہ ہموار ہوئی مگر امریکہ ہی نہیں‘ طالبان نے بھی پاکستان کے ساتھ طوطا چشمی سے کام لینا شروع کر دیا۔ پاکستان نے افغانستان کی درپیش اقتصادی مشکلات سے عہدہ برا ہونے کیلئے بھی اقوام عالم کو افغانستان کی معاونت پر قائل کیا اور خود بھی مالی سپورٹ فراہم کی مگر اس کا جواب ہمیں طالبان لیڈران کی جانب سے آئے روز کی دھمکیوں اور پاکستان کیخلاف توہین آمیز رویوں کی صورت میں موصول ہونے لگا۔ 
یہ امر واقع ہے کہ گزشتہ دو سال کے عرصے میں پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں‘ ان میں سے 90 فیصد وارداتوں میں افغان سرحد عبور کرکے پاکستان آنیوالے دہشت گرد ملوث ہیں جن کی بھارت نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے مقاصد کے تحت افغان سرزمین پر اپنی ایجنسی ”را“ کے ذریعے تربیت اور سرپرستی کی۔ اسکے پاکستان کے پاس ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں جو نمائندہ عالمی اداروں اور قیادتوں کو فراہم کئے جا چکے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اب تک کابل انتظامیہ کے ساتھ محض رسمی احتجاج ہی کیا جاتا رہا ہے اور افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں کا داخلہ روکنے کیلئے متعدد بار پاک افغان سرحد بھی بند کی گئی مگر پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھنے والی کابل انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ بلوچستان میں عید میلادالنبی کے روز ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات تو ہماری سلامتی کے حوالے سے لمحہ¿ فکریہ ہیں جو نہ صرف ٹھوس انکوائری بلکہ ہمارے سکیورٹی اداروں میں موجود خامیوں کی جانچ پڑتال کرکے ان پر قابو پانے کے بھی متقاضی ہیں۔ اب کابل انتظامیہ بھی ہماری جانب سے کسی رورعایت کی ہرگز مستحق نہیں۔ علاقائی امن تہہ و بالا کرنے کے درپے بھارت اور اسکی معاون کابل انتظامیہ کو اب اقوام عالم کی جانب سے بھی مسکت جواب دینے کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان کی جانب بڑھنے والی آگ پورے خطہ اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن