بچے خود کشی کیوں کرتے ہیں ؟
انسان فطری طورپر ماں کی محبت کا بھوکا ہوتا ہے۔ یہ بھوک ساری زندگی ختم نہیں ہوتی۔ ماں کی محبت کی ضرورت بڑھاپے میں بھی ہوتی۔ یہ زندہ رہنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ کچھ بچے دوسروں کی نسبت ماں کی محبت اور توجہ زیادہ چاہتے ہیں۔ ایسے بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ننھنی منی بچی نے سکول کی چھت سے کود کر صرف اس لیے خود کشی کرلی تھی کہ اس کی والدہ دوسری بہن سے پیار کرتی ہیں جبکہ اس سے نہیں کرتی ہیں۔ یہ حادثہ مجھے اپنے بچپن میں لے گیا۔ جہاں مجھے دن رات یہ بات دکھی رکھتی تھی کہ میری والدہ مجھ سے محبت نہیں کرتیں۔ بلکہ دوسری بہن سے زیادہ محبت کرتی ہیں۔
مجھے یاد ہے میں کیسے ہر وقت اس بات پر روتی رہتی تھی اور اداس رہتی تھی۔ امی جب مجھے چھوڑ گئیں تو احساس ہوا کہ وہ تو سب سے زیادہ مجھے چاہتی تھیں۔ لیکن ایسے کیا عوامل تھے جن سے میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میری والدہ مجھے کم چاہتی ہیں۔ میری والدہ کا ایک نظریہ تھا۔ کہ بچہ روٹھ گیا ہے تو اسے منانا نہیں۔ ایک بار منایا تو روز روٹھے گا۔ یہ اس کی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ دوسرا امی اپنے بچوں سے محبت کے اظہار میں کنجوسی کرتی تھیں۔ حالانکہ میں اب سوچوں اور دیکھوں تو امی مجھے ڈانٹ کر خود بھی رو دیتی تھیں۔ یہ محبت ہی تو تھی۔ لیکن ایک حساس بچے کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔ وہ بچہ ہے۔ وہ آپ کے ان چھپے ہوئے جذبات کو سمجھنے سے عاری ہے۔ جو امی کی محبت تھی اسے میں اب سمجھ سکتی ہوں اور محسوس کر سکتی ہوں لیکن بچپن میں میں نہیں سمجھ سکتی تھی۔
ایک بچہ کیا چاہتا ہے ماو¿ں کو سمجھنا چاہیے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دیتی ہوں۔ چند دن پہلے میری چار سال کی بیٹی مجھ سے ناراض ہو کر دروازے کی طرف بھاگی۔ کہ میں آپ کو چھوڑ کر جنگل چلی جاو¿ں گی۔یہ بات مجھے اپنے بچپن میں لے گئی۔ جہاں میں بات بات پر گھر چھوڑنے کی دھمکی دیتی تھی۔۔ امی کا رد عمل ہوتا تھا کہ چلی جاو¿ ابھی چلی جاو¿۔ اور یہ ردعمل میرے اندر تنہائی کا جذبہ پیدا کرتا تھا۔۔
بچہ ایسا کیوں کہتا ہے۔ اکثر والدین اس کی نفسیات کو سمجھے بغیر ردعمل دیتے ہیں۔ بچہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ اسے روکا جائے۔ اسے بتایا جائے نہیں ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔ اسے محبت دی جائے۔
میں نے فوری طور پر بریرہ کی ضرورت کو سمجھا۔ اور کہا کہ میں اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتی ہوں اس کے بغیر کیسے رہوں گی۔ میں تو نہیں جانے دوں گی۔۔ وہ دروازے سے پلٹی اور بھاگ کر میرے گلے لگ گئی۔ اور خوش ہو گئی۔ بس چند جملے تھے۔ جس نے میری بیٹی کے دل میں وہ محرومی پیدا نہیں ہونے دی جس کا شکار میں اپنے بچپن میں ہوئی۔ ماں سے زیادہ کوئی محبت نہیں کرتا۔ نہ ہی ماں بچوں میں تفریق کر سکتی ہے۔ لیکن ماں کو سمجھنا چاہیے کہ بچے کی بھی جذباتی ضروریات ہیں۔ ان عوامل کو فوری طور پر ختم کرنا چاہیے جس سے بچے میں دوسرے بہن بھائیوں سے موازنے کا خیال پیدا ہو۔ یا وہ تنہائی کا شکار ہو۔
بریرہ ابھی بہت چھوٹی ہے۔ وہ اکثر کہہ دیتی ہے۔ کہ آپ مفرح کو زیادہ پیار کرتی ہیں۔ میں فوری طور پر اسے گود میں لے کر سمجھاتی ہوں۔ اسے یاد کرواتی ہوں کہ کب کب اسے زیادہ گفٹس ملے۔ اسے گھمانے لے کر گئی۔ یا اس کی پسند کا کھانا دیا۔ اور ساتھ اس کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے پیار کرتی ہوں۔ وہ اس وقت پیار ہی تو چاہتی ہے۔
ماہرین نفسیات کے نزدیک بچے کو دن میں بار بار بلا کر گلے لگانا چاہیے۔ اسے چومنا چاہیے۔ اس سے اس کی جذباتی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ میں بلاوجہ بھی اپنے بچوں کے پاس سے گزرتے انھیں پیار کرتی ہوں۔ انھیں ڈانٹتی ہوں سمجھاتی بھی ہوں۔ لیکن انھیں تنہا نہیں چھوڑتی۔ اپنے بچوں کو ایسے لمحوں میں جب وہ ایسے کسی جذبے کی وجہ سے دکھ کا شکار ہوں کبھی تنہا نہ چھوڑیں۔ ورنہ وہ تنہا ہوتے چلے جائیں گے۔ سمجھیں کہ محبت بچے کی ایسے ہی ضرورت ہے جیسے کھانا اور پینا۔ دن میں بچہ اگر بار بار کھاتا ہے تو اسے محبت بھی اتنی بار ہی چاہیے۔
جب آپ بچے سے محبت کا اظہار نہیں کریں گے توبچہ ان سکیور ہوتا چلا جائے گا۔ بچے کو جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہونے دیں۔ اسے ایک مکمل شخصیت کے طور پر پروان چڑھائیں۔ گھر کے دیگر افراد میرے جذبات کو سمجھتے تھے۔ لیکن امی نہیں سمجھ سکیں۔ وہ اظہار کے معاملے میں کنجوسی کرتی تھیں۔ حالانکہ بڑی بہنیں مجھے بتاتیں کہ آپ کی غیر موجودگی میں وہ آپ کے بارے میں بہت محبت کی باتیں کرتی ہیں۔ لیکن بچے کو کیا فائدہ اس محبت کا جسے وہ ڈائریکٹ محسوس نہ کر سکے۔۔۔۔
بچہ بلاوجہ شکایات کرتا ہے۔ اس کی شکائیت کو سنیں۔ اسے یہ ردعمل کبھی نہ دیں کہ تمھاری تو شکایات ختم نہیں ہوتیں۔ تم تو کسی طرح خوش نہیں ہو سکتے۔ ایسے بچے دوسروں بچوں کی نسبت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ ان کی شکائیت سن کر ازالہ کریں۔ بہت سے بچے بلاوجہ دکھ کی کیفیت میں رہتے ہیں۔اگر یہ کیفیت لمبی ہو جائے تو بچہ انگزائیٹی کا شکار ہو جاتا ہے بچے کے اندر انگزائیٹی موروثی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی تھراپی خود سے کریں۔ اگر بچے کی کیفیت لمبی ہو گئی ہے۔ تو اس کا علاج بھی ہے۔ اسے ڈاکٹر کو دکھائیں۔ بچے کو ایک صحت مند سوچ کا حامل انسان بنانے کے لیے جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ جذباتی ضروریات کو بھی سمجھیں۔
بچے بلاوجہ گھنٹوں روتے ہیں۔ انھیں رونے کے دورے پڑتے ہیں۔ اس وقت میں عموما والدین تنگ آکر مارنے لگتے ہیں۔لیکن بچے بے بس ہوتے ہیں۔ بچوں کا چڑچڑا پن ، بلاوجہ ضد اور رونا آئرن یا وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ یا دیگر نفسیاتی عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔
............................ (جاری ہے)