چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے ایک کالم
7مارچ 2016ءکو کالم نگار کا اک کالم ”کامریڈ‘سراج الحق بھٹو بننے کے چکر میں‘ کے عنوان سے روزنامہ ’نوائے وقت‘میں شائع ہوا۔ کالم میں لکھا گیا کہ ’پچھلے کئی دنوں سے امیر جماعت اسلامی جاگیرداری کی مخالفت میں خوب بول رہے ہیں۔ اگر وہ اس میں نیک نیت ہیں تو وہ سپریم کورٹ میں عابد حسن منٹوکی جاگیرداری کے خلاف رٹ میں فریق مقدمہ بننے کی درخواست دے کر ان کے مددگار کیوں نہیں بنتے؟ ورنہ بقول سید انور محمود یہی سمجھا جائے گا کہ وہ محض بھٹو بننے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں‘۔ اگلے ہی روز کالم نگار یاسر پیر زادہ کا کالم نگار کے لیے ٹیلی فونک میسج تھا کہ مولانا عابد حسن منٹو کے ساتھ کبھی کھڑے نہیں ہوں گے۔ وہ بھی درست کہہ رہے تھے ۔ در اصل جاگیرداری کی مخالفت جماعت اسلامی کی پالیسی ہی نہیں۔
یہ 2003ءکا واقعہ ہے ۔ علامہ اقبال کے یومِ ولادت پر الحمرا ہال لاہور میں ایک تقریب تھی ۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنا مقالہ پڑھتے ہوئے کہا ،’ملکیت زمین کے حق میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی اور جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود ہم خیال پائے جاتے ہیں۔دونوں کے خیالات جاگیرداری کے حق میں یکساں ہیں ‘۔ اس تقریب میں اس زمانے کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد بھی موجود تھے۔ اپنی باری پر تقریر کرتے ہوئے انھوں نے پروفیسر فتح محمد ملک کی بات کا جواب دیاکہ مولانا مودودی کو مرزا بشیر الدین محمود سے جوڑنا دانشوری نہیں۔ تاہم انھوں نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی کہ آیا دونوں میں جاگیرداری کے مسئلے پر اتفاق رائے ہے یا نہیں۔ یہ سب کچھ کالم نگار کو تب یاد آیا جب عابد حسن منٹو کی آٹو بائیوگرافی ’پون صدی کا قصہ‘ اس کے ہاتھ آئی۔ پھر تو یہ درویش نامہ مکمل پڑھے بغیر ہاتھ سے چھوٹا ہی نہیں۔
جاگیرداری خالصتاً انگریزوں کا پیدا کردہ ادارہ ہے ۔ ان سے پہلے زمین کے وراثتی حقوق نہیں ہوا کرتے تھے ۔ ریاست جاگیروں کی مالک تھی ۔ کسی جاگیردار کے مرنے پر جاگیر تخت کو واپس چلی جاتی۔ نئی تقرری پر جاگیر نئے جاگیردار کے حوالے کر دی جاتی۔ آزادی کے فوراً بعد ہندوستان نے اس لعنت سے نجات حاصل کر لی لیکن مسلم لیگی قیادت پر جاگیرداروں کے غلبے کے باعث ادھر ایسا ممکن نہ ہوا۔ البتہ مشرقی پاکستان میں آزادی کے ابتدائی برسوں میں اس سلسلے میں ضرور قانون سازی ہوئی ۔ پھر اس پر عمل درآمد بھی ہوا۔ مشرقی پاکستان میں موجود جاگیرداری ختم ہو گئی ۔ وہاں سرکار نے حاصل شدہ زمینیں بے زمین کسانوں میں بانٹ دیں۔ مشرقی پاکستان میں یہ اس لیے ممکن ہوا کہ اول وہاں مسلم لیگی قیادت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی، دوم وہاں جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کی اکثریت ہندو تھی ۔ عابد حسن منٹو نے لکھا ہے، اس ساری صورتحال کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان میں وہ سیاست ظہور پذیر ہوئی جس کی تنظیمی شکل عوامی لیگ تھی ۔ عوامی لیگ کی ساری لیڈر شپ درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھتی تھی ۔
مغربی پاکستان میں صورتحال مختلف تھی ۔ مشرقی پاکستان کے برعکس یہاں جاگیروں پر پابندی سیاست پر جاگیردارو ں کے تسلط کے باعث ممکن نہ تھی ۔ سو نہ لگ سکی ۔ البتہ جاگیرداروں کے تحفظ کے لیے انجمن تحفظ حقوق کاشتکاراں کے نام سے ایک جماعت ضرور بن گئی ۔ ضرورت نے غیر حاضر جاگیرداروں کو کاشتکار کہلوانے اور شریعت کی مدد لینے پر مجبور کر دیا۔ اس جماعت کے صدر نوابزادہ نصر اللہ خاں اور سیکرٹری جنرل پیر نو بہار شاہ تھے۔ بہت بڑے زمیندار پیر نو بہار شاہ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اپنی ٹوپی سر سے اتار کر ہاتھوں میں پکڑ کر بولے، جیسے کوئی مجھ سے میری یہ ٹوپی نہیں چھین سکتا اسی طرح مجھ سے میری زمین بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ ہندوستان میں مذہبی جماعتوں کی اکثریت نے مسلم لیگی مطالبہ پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔ البتہ کمیونسٹوں نے مطالبہ پاکستان کی حمایت کی تھی ۔ 1954ءمیں کمیونسٹ جماعت پر پابندی لگ گئی ۔
مغربی پاکستان میں جاگیرداری کے خلاف سفر ایوب خان عہد سے شروع ہوا۔ ایوب خان کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ صرف طاقتور جاگیرداروں سے محسوس ہوا۔ سوصرف ان جاگیرداروں پر زرعی اصلاحات کا نفاذ ہوا جنھوں نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے کنونشنل مسلم لیگ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ ایوب خان کے حمایتیوں کو رعایت مل گئی ۔ بھٹو کی 1972ءکی زرعی اصلاحات میں حد ملکیت 200ایکڑ فی فرد اور 1977کی اصلاحات میں 100ایکڑ فی فرد مقرر ہوئی۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں معکوس ترقی شروع ہو گئی ۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے زرعی اصلاحات کو خلاف شریعت قرار دے کر منسوخ کردیا۔ عابد حسن منٹو 2019ءسے اس فیصلہ کے خلاف درخواست گزار ہیں کہ شریعت بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر زرعی اصلاحات کے دونوں قوانین یعنی 1972ءکا قانون اور اس کے بعد 1977ءکی اسمبلی کے ایکٹ کو بحال کیاجائے جس کے ذریعے تحدید ملکیت کے اصول طے کیے گئے ہیں۔ اس مقدمہ میں عوام الناس کو نوٹس کیا گیا، ’جو شخص بھی اس مقدمہ کے سلسلہ میں اپنی معروضات پیش کرنا چاہتا ہے ، پیش ہو سکتا ہے ‘۔ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تھے ۔ نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کچھ عرصہ سماعت کے بعد کہا، ’یہ مقدمہ جس اہمیت کاحامل ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس کی ڈے ٹو ڈے سماعت کی جائے اور اس کے لیے آئندہ ایک مناسب تاریخ مقرر کی جائے ‘۔ اب مناسب تاریخ کی سنےے، وہ دن اور آج کا دن ، یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر التواءہے ۔ عابد حسن منٹو نے لکھا، ’یہ مقدمہ کب سنا جائے گا؟ یہ میں نہیں جانتا البتہ اس دوران میری عمر 91برس ہو چکی ہے اور پچھلے چند سال سے وکالت سے بھی دستبردار ہو چکا ہوں۔ اب یہ مقدمہ لگا تو میرے بیٹے بلال کو کرنا پڑے گا۔ بشرطیکہ اس کی زندگی میں لگ جائے اور سنا جائے!‘