ضمانت کی 9درخواستیں مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم، سائفر کیس: عمران، شاہ محمود کل عدالت طلب
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کی سماعت اِن کیمرہ کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ سماعت اِن کیمرہ ہوگی یا اوپن کورٹ میں۔ کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی تاریخ دیں گے۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ استدعا ہے کہ آئندہ سماعت ایک دو دن میں ہی رکھ لی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آفس کیس سماعت کے لیے مقرر کر دے گا۔ پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کو پبلک نہیں کیا جا سکتا، آج ہم ایک درخواست ٹرائل کورٹ میں دائر کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ ٹرائل کا معاملہ الگ ہے، کیا ضمانت کی سماعت بھی اِن کیمرہ ہو سکتی ہے؟۔ چیف جسٹس نے وکلاءسے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس حوالے سے تو نہیں معلوم، آپ بھی دیکھ لیجئے گا، ٹرائل کورٹ میں بیان بونا ہے وہ ٹرائل کورٹ کا اختیار ہے کہ ان کیمرہ کرتی ہے یا نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سائفر سے متعلق کوئی کوڈ آف کنڈکٹ یا ایس او پی ہے تو بتا دیں۔ سپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران کچھ اہم دستاویزات اور بیانات عدالت کے روبرو رکھنے ہیں، کچھ ممالک کے بیانات بھی ریکارڈ پر لانے ہیں، یہ کارروائی پبلک ہوگی تو کچھ ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ سائفر سے متعلق کوڈ آف کنڈکٹ عدالت میں پڑھا گیا۔ منور دوگل ایڈووکیٹ نے کہا کہ کوڈڈ پیغام ہر ملک کا الگ ہے۔ شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ سائفر ایک خفیہ دستاویزات ہیں جسے ہر صورت خفیہ رکھا جاتا ہے، سائفر وزارت خارجہ سے آتا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سائفر کا اصل گھر وزارت خارجہ ہے لیکن سائفر آتے کیسے ہیں؟۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت کی 9 درخواستیں بحال کرنے کی استدعا پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواستیں بحال کرنے کی استدعا منظور کرلی۔ ان کیسز میں 9 مئی کے تین مقدمات، اسلام آباد میں احتجاج کے تین مقدمات، توشہ خانہ جعل سازی کیس، دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور اقدام قتل کے مقدمات شامل ہیں۔ 6 درخواستیں سیشن کورٹ اور تین انسداد دہشت گردی عدالتوں میں ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ میں ضمانت کی درخواستیں بحال کرتے ہوئے ضمانت خارج کرنے کے ٹرائل کورٹس کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔ اور ضمانت کی درخواستیں بحال کرتے ہوئے ٹرائل کورٹس کو دوبارہ سماعت کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ سیشن کورٹ اور انسداد دہشت گردی عدالت نے عدم پیروی پر ضمانتیں خارج کی تھیں۔ دوسری جانب آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفرکیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو کل4 اکتوبر کو طلب کرلیا ہے۔ چالان جمع ہونے کے بعد جج نے کہا کہ گواہوں کے بیانات ملزمان کو نوٹس جاری کرنے کے لیے کافی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کی عدالت پیشی کے حوالے سے سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے، سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل 4 اکتوبر کو چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو عدالت پیش کریں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد سول قدرت اللہ کی عدالت میں مبینہ غیر شرعی نکاح کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت کے دلائل جاری ہیں جبکہ کیس کی سماعت12 تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ طلبی کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت پیش نہ کیا گیا اور نہ پراسیکیوٹر عدالت پیش ہوئے۔ شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے موقف اختےار کےا کہ پراسیکیوٹر عدالت پیش نہیں ہوئے، گزشتہ سماعت پر عدالت نے پراسیکیوٹر کو آخری موقع دیا تھا، جب تک چیئرمین پی ٹی آئی گرفتار نہیں تھے تو ویڈیو لنک پر حاضری کی سہولت بھی نہیں تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی گرفتار ہوئے تو ویڈیو لنک پر حاضری کی سہولت بھی آگئی، چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت طلبی کا نوٹس ہوا تھا، جیل سے جواب آیا؟۔ عدالت کے جج نے کہا کہ جیل سے چیئرمین پی ٹی آئی کے حوالے سے کوئی جواب نہیں آیا، ویڈیو لنک کے زریعے حاضری لگانے کی درخواست آئی ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ انڈر ٹرائل لوگوں کو عدالت پیش نہیں کیا جاسکتا، جب تک اس کیس میں چارج فریم نہ ہو تو ملزم کو کیوں بلایا جائے۔ عدالت کے جج نے کہا کہ طلاق کب موثرہوتی ہے یہ پوائنٹ واضح کر دیں۔ وکیل نے کہا کہ طلاق کا معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ہے۔ جج نے کہا کہ بشری بی بی کو کب طلاق دی گئی اس پر واضح موقف نہیں آیا، کب طلاق موثر ہوئی اس حوالے سے بھی نہیں بتایا گیا، الزام ہے کہ غلط نکاح کی وجہ سے دوبارہ نکاح کیا گیا، جس مولوی نے پہلا نکاح پڑھایا انہوں نے یہ الزام لگایا، کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ عدت میں نکاح ہوا۔ شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ جس نے الزام لگایا اس نے ثابت کرنا ہے کہ عدت میں نکاح ہوا، عدت میں نکاح ثابت ہو بھی جائے تو سزا نہیں ہوسکتی، عدالت اس چیز کو بھی دیکھے کہ کیا یہ عوامی مفاد کا کیس ہے، یہ ایک پراکسی کیس ہے اور بدنیتی پر مبنی ہے۔